Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

لبنان کی عسکری تنظیم حزب اللہ کتنی طاقتور ہے؟

اسرائیلی فوج نے کہا کہ حسن نصراللہ کو بیروت کے جنوبی مضافات میں ایک فضائی حملے میں ہلاک کیا گیا (فائل فوٹو: اے ایف پی)
لبنان کی حزب اللہ نامی تحریک ایک طاقت ور ملکی اور علاقائی طاقت ہے جو سیاسی اور عسکری قوت رکھتی ہے۔ لیکن تنظیم کی جانب سے سنیچر کو اپنے سربراہ کی ہلاکت کی تصدیق ایک بڑا دھچکہ ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ایران سے مالی اور عسکری مدد حاصل کرنے والی حزب اللہ مزاحمت کا محور، خطے میں ایران کی حمایت یافتہ تنظیمیں جو اسرائیل کے خلاف ہیں، کا سب سے اہم کردار ہے۔ ان تنظیموں میں حماس، عراق کی شیعہ ملیشائیں اور یمن کے حوثی باغی بھی شامل ہیں۔
حماس کے گذشتہ برس سات اکتوبر کو اسرائیل پر حملے کے بعد غزہ کی پٹی میں جنگ شروع ہوئی تو حزب اللہ نے حماس کی ’حمایت‘ میں اسرائیل پر راکٹ برسانا شروع کر دیے۔
اسرائیل اور حزب اللہ کے تنازع میں گذشتہ ہفتے میں مزید شدت آئی اور پیر کو اسرائیلی فضائیہ کے حملوں میں لبنان کی وزارت صحت کے مطابق 550 افراد سے زائد افراد ہلاک ہو گئے۔ یہ لبنان کی 90-1975 تک جاری رہنے والی خانہ جنگی کے بعد تشدد کے حوالے سے سب سے مہلک دن تھا۔
اسرائیلی حملوں میں حزب اللہ کے جنوبی بیروت، لبنان کے جنوب اور البقاع میں موجود محفوظ ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا۔
فضائی حملے پیجرز اور واکی ٹاکی دھماکوں کے بعد ہوئے تھے۔ ان دھماکوں میں حزب اللہ کے ارکان کو نشانہ بنایا گیا تھا جبکہ 40 افراد ہلاک اور تین ہزار کے قریب زخمی ہوئے۔ ان منظم دھماکوں کا الزام بھی اسرائیل پر عائد کیا گیا۔
جولائی سے اسرائیل جنوبی بیروت پر حملوں میں حزب اللہ کے کئی اعلٰی کمانڈروں کو بھی ہلاک کر چکا ہے۔ ان میں حسن نصراللہ کے اہم مشیر فواد شکر اور حزب اللہ کی ایلیٹ رضوان فورس کے سربراہ ابراہیم عاقل شامل ہیں۔
سنیچر کو اسرائیلی فوج نے کہا کہ اس نے حسن نصراللہ کو بیروت کے جنوبی مضافات میں ایک فضائی حملے میں ہلاک کر دیا ہے اور بعد میں حزب اللہ نے ان کی ہلاکت کی تصدیق کر دی۔

اسرائیلی فضائیہ لبنان پر مسلسل بمباری کر رہی ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

حزب اللہ کی تاریخ

حزب اللہ جس کے عربی میں معنی ’اللہ کی جماعت‘ ہیں، سنہ 1982 میں لبنان میں جاری خانہ جنگی کے دوران اس وقت بنی جب اسرائیل نے دارالحکومت بیروت کا محاصرہ کیا ہوا تھا۔ اس کے بعد سے یہ گروہ ایک طاقتور ملکی سیاسی کھلاڑی بن گیا ہے۔
ایران کے پاسداران انقلاب کے ایما پر تشکیل دی گئی، شیعہ مسلم تحریک نے سنہ 2000 تک جنوبی لبنان پر قبضہ کرنے والے اسرائیلی فوجیوں سے لڑ کر ’مزاحمت‘ کے نشان کے طور پر اپنی پہچان بنائی۔
سنہ 2006 میں سرحد پار سے دو اسرائیلی فوجیوں کو اغوا کرنے کے بعد اسرائیل اور حزب اللہ میں جولائی سے اگست تک ایک ماہ طویل جنگ ہوئی جس میں لبنان میں تقریباً 12 سو افراد مارے گئے، جن میں زیادہ تر عام شہری تھے، اور اسرائیل میں 160 لوگ ہلاک ہوئے، جن میں زیادہ تر فوجی تھے۔

حزب اللہ کا کہنا ہے کہ اس کے جنگجوؤں کی تعداد ایک لاکھ سے زائد ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 1701 نے اس تنازع کو ختم کیا اور لبنانی فوج اور اقوام متحدہ کے امن دستوں کو جنوبی لبنان میں تعینات واحد مسلح افواج کے طور پر تعینات کیا گیا۔ لیکن حزب اللہ اس علاقے میں اپنا تسلط رکھتی ہے اور اسے وسیع حمایت حاصل ہے، جبکہ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کے پاس زیرزمین سرنگوں کا نیٹ ورک موجود ہے۔
16 اگست کو گروہ نے ایک ویڈیو جاری کی جس میں مقام کو ظاہر کیے بغیر زیرزمین سرنگیں اور بڑے میزائل لانچر دکھائے گئے۔ شام کے قریب وادی البقاع میں بھی اس گروہ کی مضبوط موجودگی ہے۔
حزب اللہ کے پاس گائیڈڈ میزائل سمیت طاقتور ہتھیار موجود ہیں، اور اس کا کہنا ہے کہ اس کے جنگجوؤں کی تعداد ایک لاکھ سے زائد ہے، حالانکہ تجزیہ کاروں کے خیال میں یہ تعداد تقریباً 50 ہزار کے قریب ہے۔
سنہ 1992 میں اسرائیل نے حزب اللہ کے بانی کو قتل کر دیا تھا جس کے بعد حسن نصراللہ تنظیم کے سیکریٹری جنرل منتخب ہوئے۔ وہ عوامی سطح پر کم ہی نظر آتے تھے۔

حزب اللہ کے پاس گائیڈڈ میزائل سمیت طاقتور ہتھیار موجود ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

حزب اللہ مشرق وسطیٰ میں ایک بڑی طاقت ہے اور اس نے عراق میں ایران کے حمایت یافتہ گروہوں اور یمن میں حوثی باغیوں کی مدد اور تربیت کی ہے۔
حزب اللہ شام میں بھی موجود ہے، جہاں اس کے بہت سے ارکان یہاں ہونے والی خانہ جنگی میں صدر بشار الاسد کی حمایت میں لڑ چکے ہیں، کیونکہ شام بھی تہران کا اتحادی ہے۔
ملکی سطح پر حزب اللہ وہ واحد لبنانی دھڑا ہے جس نے خانہ جنگی کے بعد اسرائیل کے خلاف ’مزاحمت‘ کے نام پر ہتھیار نہیں ڈالے۔ یہ اب ایک اہم سیاسی کھلاڑی ہے، حالانکہ اس کے مخالف اس پر ’ریاست کے اندر ریاست‘ ہونے کا الزام لگاتے ہیں۔

شیئر: