Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اسرائیلی حملے، اب تک حزب اللہ کے کون کون سے کمانڈر مارے گئے؟

فواد شکر 30 جولائی کو اسرائیلی حملے کا نشانہ بنے تھے (فوٹو: روئٹرز)
اسرائیل نے بیروت میں پے در پے حملے کر کے حزب اللہ کے کئی کمانڈروں کو نشانہ بنایا ہے، اس شہر کو ایران کی حمایت یافتہ تنظیم کا مضبوط گڑھ سمجھا جاتا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے حالیہ دنوں کے دوران مارے جانے والے کمانڈرز کے حوالے سے تفصیلات بتائی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق 30 جولائی کو ہونے والے حملے میں فواد شکر مارے گئے جو کہ گروپ کے اعلٰی کمانڈرز میں سے تھے اور اسرائیل کی ہائی پروفائل ہٹ لسٹ پر تھے۔
حزب اللہ کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ فواد شکر کی عمر 60 برس سے کچھ زیادہ تھی اور وہ اسرائیل کے ساتھ سرحد پر جھڑپوں میں اہم کردار ادا کرتے رہے۔
غزہ میں جنگ شروع ہونے کے بعد سے تقریباً روز ہی حزب اللہ اور اسرائیلی فورسز کے درمیان سرحدی علاقوں میں جھڑپیں دیکھنے میں آتی رہی ہیں۔
فواد شکر حزب اللہ کے بانیوں میں سے ہیں اور 1975 سے 90 تک جاری رہنے والی خانہ جنگی کے دوران اس کے سربراہ حسن نصراللہ کے اہم مشیر رہے۔
وہ حزب اللہ کے سب سے سینیئر فوجی کمانڈر تھے اور حسن نصراللہ کا کہنا ہے کہ وہ سات اکتوبر کو شروع ہونے والی جنگ کے بعد ان سے مسلسل رابطے میں تھے۔
اسرائیل نے فواد شکر پر الزام لگایا ہے کہ انہوں نے جولائی میں گولان ہائیٹس کے علاقے میں راکٹ حملہ کیا تھا جس میں 12 بچے ہلاک ہوئے تھے جبکہ حزب اللہ اس الزام کی تردید کرتا ہے۔
2017 میں امریکہ نے فواد شکر کے بارے میں اطلاع دینے والے کے لیے 50 لاکھ ڈالر کے انعام کا اعلان کیا۔
امریکہ کی جانب سے کہا گیا کہ 1983 میں امریکی فوجیوں کی بیرکس میں دھماکوں کے واقعے میں وہ ملوث تھے۔
اسی طرح 20 ستمبر میں ہونے والے حملے میں حزب اللہ کے رضوان گروپ کے رہنما ابراہیم عقیل ہلاک ہوئے، اس حملے میں دیگر 15 کمانڈر بھی مارے گئے۔لبنان کے حکام کا کہنا ہے کہ اس حملے میں مجموعی طور پر 55 افراد ہلاک ہوئے، جن میں سے زیادہ تر عام شہری تھے۔
حزب اللہ کے ایک قریبی سورس نے ابراہیم عاقل کو فواد شکر کے بعد گروپ کا دوسرا اہم ترین کمانڈر قرار دیا ہے۔
سورس نے اے ایف پی کو بتایا کہ رضوان یونٹ میں شامل فائٹرز سرحدی علاقے میں جنگ کے حوالے سے خصوصی طور پر تربیت یافتہ ہوتے ہیں۔
امریکہ کا کہنا ہے کہ ابراہیم عقیل حزب اللہ کی جہاد کونسل کے رکن تھے جو کہ تحریک کی سب سے اعلٰی درجے کی فوجی باڈی ہے۔
امریکہ کی وزارت خزانہ کا کہنا ہے کہ وہ اسلامک جہاد کونسل کے ’پرنسپل ممبر‘ تھے جو کہ وہ گروپ ہے جو کہ 1983 میں بیروت میں امریکی سفارت خانے پر حملوں میں ملوث تھا اور ان کے نتیجے میں 63 افراد ہلاک ہوئے تھے، جبکہ لبنان میں فوجیوں کے ٹھکانے پر دھماکوں میں 241 فوجی ہلاک ہوئے تھے۔
25 ستمبر کو ایک فضائی حملے میں ابراہیم محمد قبیسی ہلاک ہوئے جو گائیڈڈ میزائلز کے یونٹ کے علاوہ دیگر کئی یونٹس کے کمانڈر تھے۔
اسرائیل کے فوجی حکام کا کہنا ہے کہ ’ابراہیم قبیسی میزائلز کے حوالے سے اہم معلومات رکھتے تھے اور حزب اللہ کے فوجی حکام کے قریب سمجھے جاتے تھے۔‘
قبیسی نے 1982 میں حزب اللہ میں شمولیت اختیار کی تھی اور بعدازاں ترقی کرتے ہوئے گروپ کے اہم عہدوں تک پہنچے۔
وہ اس یونٹ کے کمانڈر بھی رہے جس کو لبنان کے اسرائیل کے ساتھ لگنے والے بارڈر پر کارروائیوں کے لیے اہداف دیے جاتے رہے۔
اسی طرح 26 ستمبر کو ایک حملے میں محمد سرور ہلاک ہوئے جو کہ 2020 سے حزب اللہ کے ڈرون یونٹ کے سربراہ تھے۔
حزب اللہ کے قریبی سورس کا کہنا ہے کہ کہ سرور میتھیمیٹکس کے میدان میں اعلٰی تعلیم یافتہ تھے اور ان کمانڈرز میں بھی شامل تھے جن کو یمن میں حوثی باغیوں کی تربیت کے لیے بھجوایا گیا، اور ان کو بھی ایران کی پشت پناہی حاصل ہے۔
وہ حزب اللہ کی جانب سے شام میں 2013 میں شروع ہونے والی خانہ جنگی کے دنوں میں بھی متحرک رہے۔
حزب اللہ کی جانب سے سرور کا جنازہ اور تدفین جمعے کو کی گئی۔
علاوہ ازیں دیگر حالیہ حملوں میں مارے جانے والے کمانڈرز میں وسام التویل اور محمد نصر شامل ہیں۔

شیئر: