ایک ہفتے میں پی آئی اے کے دو جہازوں میں فنی خرابی، وجوہات کیا ہیں؟
ایک ہفتے میں پی آئی اے کے دو جہازوں میں فنی خرابی، وجوہات کیا ہیں؟
اتوار 29 ستمبر 2024 14:39
زین علی -اردو نیوز، کراچی
مسافروں کو باحفاظت دبئی پہنچانے کے بعد انجینیئرز نے جہاز کا معائنہ کیا اور معائنے کے بعد اسے پاکستان کے لیے روانہ کر دیا گیا۔ (فائل فوٹو: روئٹرز)
عمان کے شہر مسقط سے پاکستان کی قومی ایئرلائن پی آئی اے کی پرواز پی کے 260 پشاور کے لیے اتوار کی صبح روانہ ہوئی تو تقریباً 30 منٹ کے بعد ہی بلوچستان کے علاقے تربت کے قریب اچانک جہاز کے ہائیڈرولک سسٹم میں خرابی کی نشاندہی ہو گئی۔
جہاز کا پائلٹ ابھی صورتحال کا جائزہ ہی لے رہا تھا کہ اچانک جہاز زمین کی طرف جانے لگا، پائلٹ نے جہاز کے عملے کو کال دی اور جہاز کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی، اس دوران جہاز تقریباً سات منٹ میں آسمان سے زمین کی جانب 36 ہزار فٹ نیچے آ چکا تھا۔
مسافر جہاز کو تیزی سے آسمان سے زمین کی جانب آتا دیکھ کر خوف زدہ ہو گئے۔ جہاز کے کریو نے اعلان کیا کہ تمام مسافر حفاظتی سیٹ بیلٹ باندھ لیں، اور اس وقت تک اپنی نشستوں نہ اٹھیں جب تک جہاز کا عملہ ہدایت نہ دے۔
جہاز کے درمیانے حصے میں سوار مسافروں نے عملے سے جہاز کے تیزی سے نیچے آنے کی وجہ جاننے کی کوشش کی تو فضائی میزبان نے مسافروں کو بتایا کہ جہاز کے سسٹم میں کچھ خرابی رپورٹ ہوئی ہے، پائلٹ کنڑول ٹاور سے رابطے میں ہے، جہاز کو پشاور کی جگہ کراچی کے جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر اتارا جا رہا ہے۔ جہاں سے مسافروں کو ان کی منزل پر پہنچانے کے لیے دوسری پرواز کا انتظام کیا جائے گا۔
واضح رہے کہ پاکستان کی قومی ایئرلائن کی یہ رواں ہفتے میں دوسری پرواز ہے جو فنی خرابی کی وجہ سے دوران سفر چند منٹوں میں بہت تیزی سے زمین کی جانب آئی ہے۔ اس سے قبل 24 ستمبر کو پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن کی پرواز پی کے 213 رات دو بج کر پانچ منٹ پر کراچی سے متحدہ عرب امارات کے لیے روانہ ہوئی تو ایک گھنٹے کی پرواز کے بعد جہاز جب عمان کے شہر مسقط کے قریب پہنچا تو پائلٹ نے کنڑول ٹاور کو اطلاع دی کہ جہاز کے ہائیڈرولک سسٹم میں خرابی رپورٹ ہو رہی ہے۔ اس دوران جہاز تقریباً 6 منٹ میں 26 ہزار فٹ کی بلندی سے نیچے آ گیا۔ پائلٹ نے جہاز کو مسقط ایئرپورٹ پر اتارنے کا فیصلہ کیا، اور اسی دوران کوشش کی کہ جہاز کی خرابی کو دور کیا جائے، اور چند منٹ میں وہ اس میں کامیاب ہو گیا۔ البتہ جہاز اپنی اصل پوزیشن میں پرواز نہیں کر سکا، اور پائلٹ نے انتہائی نیچے پرواز کر کے جہاز کو دبئی ایئرپورٹ تک پہنچایا۔
مسافروں کو باحفاظت دبئی پہنچانے کے بعد انجینیئرز نے جہاز کا معائنہ کیا اور ایئر بس اے 320 کو معائنے کے بعد پاکستان کے لیے روانہ کر دیا گیا۔
پی آئی اے میں طویل عرصے تک پائلٹ کے فرائض سرانجام دینے والے کیپٹن ریٹائرڈ بشیر چوہدری نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بلندی پر پرواز کرتے ہوائی جہاز میں اگر کوئی فنی خرابی آتی ہے تو جہاز کے پائلٹ کے پاس اسے دور کرنے کا آپشن موجود ہوتا ہے۔ جہاز اڑانے والے پائلٹ کسی بھی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کی تربیت حاصل کرنے کے بعد ہی جہاز اڑا سکتے ہیں۔
انہوں نے قومی ایئرلائن کے دو جہازوں کے ایک ہفتے میں آسمان سے تیزی سے زمین کی جانب آنے کے واقعات پر بات کرتے ہوئے کہا کہ پائلٹ کے پاس یہ آپشن ہوتا ہے کہ وہ جہاز کو آہستہ یا تیزی سے فضا سے نیچے کی جانب لا سکے۔
’ایسا کوئی فالٹ ابھی تک سامنے نہیں آیا ہے جس سے یہ کہا جائے کہ جہاز خود بہ خود اپنی مرضی سے تیزی سے زمین کی جانب آئے ہیں۔ ان واقعات میں یہ ہو سکتا ہے کہ جہاز میں فنی خرابی کی نشاندہی پر پائلٹس نے احتیاطی تدابیر اپناتے ہوئے جہاز کو قریبی ایئرپورٹس پر اتارا ہو۔‘
بشیر چوہدری کے مطابق پائلٹ جہاز کی خرابی میں کنڑول ٹاور سے لینڈنگ کی درخواست کرتے ہیں اور اگر روٹ کلیئر نہ ہو تو انہیں فضا میں ہی انتظار کرنا پڑتا ہے، یہ ایک معمول کی پریکٹس ہے، کئی بار جلدی جہاز اتارنے کی اجازت مل جاتی ہے کئی بار تھوڑا وقت بھی لگ جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ایئرلائن یہ بھی چیک کرتی ہے کہ جہاز میں خرابی اگر ان کے ریجن میں ہی ہوئی ہے تو اسے بھی چیکنگ کے لیے ہیڈ کوارٹرز پر اتار لیا جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جہاز کا پائلٹ جب جہاز کو زمین کی جانب اتارنے کا فیصلہ کرتا ہے تو وہ جہاز کی رفتار اور بلندی کو آہستہ آہستہ کم کرتا ہے، لیکن ہنگامی صورتحال میں معاملہ اس کے برعکس ہوتا ہے، تیز رفتار پرواز کو روکنے کے لیے فضا میں سپیڈ بریک لگائی جاتی ہے۔
دوسری جانب ترجمان پی آئی اے عبداللہ خان نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے ایک ہفتے میں دو جہازوں کے چند منٹوں میں ہزاروں فٹ بلندی سے نیچے آنے کی تصدیق کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ اتفاقیہ طور پر دو واقعات ایک ہفتے میں پیش آئے ہیں۔ دونوں پروازوں میں پائلٹس نے مہارت سے جہازوں کی لینڈنگ کرائی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اتوار کی صبح پشاور کی فلائٹ میں سوار مسافروں کو کراچی سے دوسری پرواز پی کے 368 کے ذریعے اسلام آباد روانہ کیا گیا، جہاں سے انہیں ان کی منزل پشاور بائے روڈ روانہ کیا گیا ہے۔