’میٹ دا رائٹر‘ یعنی لکھاریوں سے ملاقات کے نام سے مغرب میں اکثر ایسی تقریبات منعقد ہوتی ہیں جن میں پبلشرز اپنی کتابوں کے مصنفین کو مدعو کرتے ہیں، ان کی کتابوں کے سٹال لگے ہوتے ہیں۔
قارئین وہاں آ کر کتابیں خریدتے اور اپنے پسندیدہ رائٹرز سے آٹوگراف لیتے ہیں۔ یہ ایسی ہی ایک تقریب کا سچا احوال ہے۔
ہال میں تین رائٹر اپنی اپنی ٹیبل پر موجود تھے تاکہ کتابوں پر دستخط کر سکیں۔ دو کے سامنے لمبی قطار تھی۔ ان کے پڑھنے والے سٹال سے کتاب خرید کر ان سے دستخط کرانے لائن میں لگ جاتے۔
مزید پڑھیں
-
پڑھنے کے قابل کچھ باتیں: عامر خاکوانی کا کالمNode ID: 870146
دھڑا دھڑ کتابوں پر سائن کیے جا رہے تھے، کچھ لوگ اپنی آٹوگراف بک پر بھی کسی قول کے ساتھ دستخط بھی کرا رہے تھے۔ ایک لکھاری تنہا بیٹھا تھا۔ اس کے سامنے کوئی نہیں کھڑا تھا۔ دوپہر ہوگئی۔ کچھ دیر کے لیے لنچ بریک ہوئی اور پھر یہ کام شروع ہوگیا۔
وہ تیسرا لکھاری ابھی تک فارغ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھا تھا۔ بوریت دور کرنے کے لیے اس نے ایک کتاب اُٹھا کر پڑھنا شروع کر دی۔ اچانک ایک بزرگ خاتون اس کا ناول لیے اس میز پر آئی اور اسے دستخط کرنے کی درخواست کی۔
رائٹر یہ دیکھ کر کِھل اُٹھا۔ اس نے جلدی جلدی کتاب پر دستخط کیے اور پھر دلچسپی سے خاتون کو دیکھ کر بولا: ’آپ کو یہ ناول اچھا لگ رہا ہے؟‘
بزرگ خاتون مسکرائی اور پھر صاف گوئی سے بولی کہ ’نہیں، دراصل مجھے برا لگ رہا تھا کہ تم اکیلے بیٹھے ہو اورتمہاری کتاب کوئی نہیں خرید رہا، اس لیے میں نے یہ لے لی کہ کم از کم ایک کتاب تو بکے۔‘
یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اس غریب مصنّف پر کیا گزری ہوگی۔ یہ اس کا پہلا ناول تھا جو بری طرح ناکام رہا، بمشکل چند کاپیاں فروخت ہوئیں۔
کیا اس لکھاری نے اس کے بعد ناول لکھنا بند کر دیا کیونکہ وہ ایک کامیاب ٹی وی، تھیٹر، ڈرامہ رائٹر اور پروڈیوسر تھا؟ اسے ایک فلم کے سکرپٹ پر آسکر ایوارڈ بھی مل چکا تھا۔
وہ اپنے اس کیریئر میں اتنی ترقی کر رہا تھا کہ اسے ناول نگاری کا نیا پنگا لینے کی ضرورت ہی نہیں تھی، خاص کر جب پہلا ناول کمرشل سطح پر کامیاب نہیں ہوا۔
جو آپ ہم سوچ رہے ہیں، ویسا بالکل نہیں ہوا۔ دوسرا ناول بھی لکھا گیا اور دلچسپ بات ہے کہ وہ ناول غیر معمولی کامیابی سے ہمکنار ہوا۔ اس کی کئی ملین کاپیاں فروخت ہوئیں اور اس کے کیریئرکا رخ ہی بدل گیا۔
![](/sites/default/files/pictures/October/36516/2024/9170ozgdp3l._ac_uf10001000_ql80_1.jpg)
اس کے بعد اس نے سب چیزیں چھوڑ کر ناول لکھنے پر فوکس کیا۔ آئندہ برسوں میں وہ دنیا کا مقبول ترین فکشن نگار بنا جس کے تھرلنگ ناول کروڑوں کی تعداد میں فروخت ہوئے، 50 سے زائد زبانوں میں ان کے ترجمے ہوئے ان پر فلمیں اور ٹی وی سیریلز بنیں۔
اس پہلے ناول کے بعد وہ مصنّف لگ بھگ 40 سال زندہ رہا، اس کے دو درجن سے زیادہ ناول چھپے اور اپنے انتقال تک وہ ارب پتی مصنّف بن چکا تھا۔
یہ کہانی دنیا کے ایک بہت مقبول فکشن رائٹر سڈنی شیلڈن کی ہے۔
سڈنی شیلڈن کی زندگی کسی ڈرامائی ناول سے کم نہیں۔ انہوں نے اپنی موت سے تین سال پہلے شائع ہونے والی اپنی خودنوشت ’ دا ادر سائیڈ آف می‘ کو ایک ناول کے انداز ہی میں لکھا ہے۔
اس کا ہر باب ایک ڈرامائی پن لیے ہوئے ہے۔ اپنی داستانِ حیات میں سڈنی نے انکشاف کیا کہ آغاز میں وہ فیکٹری ورکر، جوتوں کے سیلز مین اورریڈیو اناؤنسر کے طور پر کام کرتے رہے۔
اور پھر وہ نغمہ نگار بننے کے لیے نیویارک پہنچ گئے جہاں انہیں خاصے تلخ تجربات ہوئے۔ وہ ایک تھیٹر کے باہر ہاکر(اونچی آواز میں ڈرامے کی سٹریٹ پبلسٹی کرنے والے) کا کام بھی کرتے رہے۔ جب موقع ملا اور حالات سازگار ہونے لگے تو سڈنی پر ڈپریشن کا دورہ پڑا۔
سڈنی شیلڈن دراصل زندگی بھر ایک نفسیاتی عارضے بائی پولر ڈس آرڈرکا شکار رہے۔ اس بیماری میں مریض کے موڈ میں ڈرامائی تبدیلیاں آتی ہیں۔ انتہائی خوشی کے موقع پر وہ خواہ مخواہ غمگین ہوجاتا ہے۔
ڈپریشن کے مرض کا شکار ہونے کے بعد نوجوان رائٹر دل شکستگی کے عالم میں اپنے گھر واپس پہنچ گیا۔ کچھ عرصے کے بعد اس نے ہالی وڈ میں قسمت آزمانے کی ٹھانی۔ شروع میں کسی قدر مایوسی ہوئی۔ آخر کار یونیورسل سٹوڈیو میں بائیس ڈالر ہفتہ وار تنخواہ پر سکرپٹ ریڈر کی ملازمت مل گئی۔
سڈنی کی زندگی بڑی کامیابیوں اور اتنی ہی بڑی ناکامیوں سے معمور رہی۔ آہستہ آہستہ فلموں کی سکرپٹ رائٹنگ کا بھی موقع ملا۔
![](/sites/default/files/pictures/October/36516/2024/alexandra-sidney-sheldon-550nw-5134454an_1.jpg)