Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’واسع پور‘ سے گنڈا پور تک۔۔۔! اجمل جامی کا کالم

اسمبلی میں تقریر کے دوران علی امین گنڈاپور کے ڈائیلاگز کی داد نہ دینا سرا سر زیادتی ہوگی۔ (فوٹو: اے ایف پی)
نعرہ تھا ڈی چوک کا، نعرہ تھا چڑھ دوڑنے کا، نعرہ تھا کپتان کی رہائی کا، نعرہ تھا اینٹ سے اینٹ بجانے کا۔
پھر چشم فلک نے دیکھا کہ گنڈاپور سرکار دوپہر تین بجے کے بعد  اس روز  کارکنان کے بیچ ہونے کے بجائے کے پی ہاؤس  پہنچتے ہیں، وہاں سے لے کر صوبائی اسمبلی میں پر اسرار انٹری تک، وہ تقریباً 30 گھنٹے پارٹی، کارکنان، اداروں اور میڈیا کی پہنچ سے بظاہر اوجھل رہتے ہیں۔
غائب ہوئے، غائب کر دیے گئے یا کچھ اور؟  اس کا تعین کرنے سے پہلے ان کی اسمبلی میں کی گئی دو شاہکار تقریریں سنیں تو معلوم ہوتا ہے کہ  گویا کسی بالی وڈ فلم کا سکرپٹ ہو۔ 
سکرپٹ بھی ایسا کہ بڑے بڑے  دھانسو لکھاری بھی  قلم منہ میں دبائے دم بخود ہو کر رہ جائیں۔ کہانی بھی ایسی کہ جس میں سسپنس بھی تھا، تھرل بھی تھی، ہارر بھی تھا اور ہیرو بھی، بس اگر کچھ مسنگ تھا تو وہ ایک عدد ہیروئن تھی یا پھر پیوش مشرا کا کوئی رات کے اندھیرے میں پہاڑوں کی چوٹیوں کے بیچ فلمایا سنگیت۔
ڈائیلاگز کی البتہ داد نہ دینا سرا سر زیادتی ہوگی۔ دیکھئے ناں! واسع پور پر بنی انوراگ کشپ  کی  انڈین فلم ’گینگز آف واسع پور ٹو‘ میں  جب نواز الدین صدیقی یعنی پھیجل خان اپنی ماں کے سامنے اپنے نکھٹو پن کی تردید کرتے ہوئے دشمنوں کو للکارتا ہے  تو گنڈاپور یاد آتے ہیں۔
’باپ کا دادا کا بھائی کا، سب کا بدلہ لے گا رے تیرا  پھیجل۔‘
ڈی چوک کی کال کے ہنگام کیا گنڈا پور بھی ایسے ہی  ڈائیلاگز نہیں بول رہے تھے؟
اور پھر ’ببوا‘ یعنی پھیجل کا بھائی جب ایک دکان لوٹنے جاتا ہے تو کیا کہتا ہے؟
’ہمارا نام پرپینڈیکولر ہے، پھیجل خان ہمارے بڑے بھائی ہیں، اور ہم آپ کی دکان لوٹنے جا رہے ہیں۔‘
یوں معلوم ہوتا ہے جیسے گنڈاپور بھی پرپینڈیکولر کی طرح آئی جی اسلام آباد کے نام کہہ رہے ہوں کہ،
ہمارا نام گنڈا پور ہے، کپتان ہمارا بڑا بھائی ہے اور ہم آپ کو تبدیل کرنے جا رہے ہیں۔‘
اور جب پولیس واسع پور جاتی ہے تو  فلم کا کریکٹر سلطان قریشی یعنی پنکجھ ترپاٹھی انہیں کہتا ہے،یہ واسع پور ہے، یہاں  کبوتر بھی اک پنکھ سے اڑتا ہے، دوسرے پنکھ سے اپنا عزت بچاتا ہے،سمجھ گئے ناں!
راجدھانی اسلام آباد میں پیش آئی اس روز کی درگھٹنا کے بعد لگا کہ گنڈاپور بھی اک پنکھ سے اڑ رہے تھے اور دوسرے سے عزت بچا کر فرار۔

چشم فلک نے دیکھا کہ گنڈاپور سرکار دوپہر تین بجے کے بعد  اس روز  کارکنان کے بیچ ہونے کے بجائے کے پی ہاؤس  پہنچتے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

اور بیک گراونڈ میں اسی فلم کے لیے خوشبو  اور ریکھا  کا گایا سنگیت چل رہا ہو کہ،
بدلے روپَیہ کے دے ناں چَونیا
سیَاں جی جھپٹیں تو ہو ناں ہرَنیاں
رہ گئی کہانی سرکار کی تو ڈی چوک کی للکار کے بعد یوں لگتا ہے جیسے گنڈاپور کو عطا تارڑ کہہ رہے ہوں کہ،
’بیٹا ! تم سے ناں ہو پائے گا‘
وہاں تو محسنا یعنی ہما قریشی پھیجل کی قربت پر پھبتی کستے ہوئے چتاونی دیتی ہیں:
’یہ سب اچھا تھوڑی ناں لگتا ہے، آپ کو پرمیسن لینی چاہیے ناں۔۔ آپ کو لگا کہ مطلب جو مرضی۔۔‘
یہاں محسن نقوی برابر گنڈاپور سے کچھ ایسا ہی مطالبہ کرتے دکھائی دیتے ہیں،
 پرمیسن لینی چاہیے ناں۔۔۔!
بہرحال! اس کہانی کا سب سے دلچسپ سین وہ ہے جب بقول گنڈاپور سرکار، وہ  ڈس گریس فل اریسٹ سے بچنے کی لیے کے پی ہاؤس کے قریب ایک چوکی میں چار گھنٹے چھپے رہے، وہاں سے مارگلہ کی پہاڑیوں تک جا پہنچے، اور صبح ہونے سے پہلے پاس سے گزرتی سڑک پر چوٹی سے پتھر پھینکتے رہے کہ شاید کوئی گاڑی رک جائے۔
معجزانہ طور پر جب کوئی گاڑی رکی تو وہ گاڑی کے پی ہاؤس کی تھی، جس کے ساتھ موٹر سائیکل پر ایک دو سکیورٹی اہلکار بھی تھے۔ حیران کن بات ہے کہ وہ گاڑی اور اس میں سوار حضرات بھی جانتے تھے کہ کہانی کا ہیرو کن راستوں پر ان کا متلاشی ہوگا۔ وہاں سے کسی بازی گر کی طرح  بارہ اضلاع گزار کر جناب گنڈا ور پھر کے پی اسمبلی پہنچ کر ہی دم لیتے ہیں۔
 سکرپٹ البتہ ان گنت سوالوں کو جنم دیتا ہے۔ اس قدر دبنگ وزیر اعلی بھلا گرفتاری سے کیونکر  پریشان ہوا؟  ورکرز کو چھوڑ کر چوکی میں چار گھنٹے کیوں پناہ لی؟ 30 گھنٹوں پر محیط طویل دورانیے کی اس فلم نما کہانی کو فلمانے کی کیا ضرورت تھی؟ کیا اس فلم سے ورکرز کا اعتماد تگڑا ہوا یا ڈگمگایا؟  

پی ٹی آئی کے ڈی چوک پر احتجاج کی کال کے بعد انتظامیہ نے مختلف سڑکوں کو کنٹینر رکھ کر بلاک کر دیا تھا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

دوسری تقریر کے آخر میں موصوف نے پھر دبنگ انداز میں نعرے بازی کی، اسمبلی جلسہ گاہ  کا منظر پیش کر رہی تھی جب انہوں نے فرمایا کہ یہ کہتے تھے کہ اٹک پل کراس کر دکھاؤ۔
 اوریئنٹل کالج  کا ایک لطیفہ کسی ادبی محفل  کے ویب پیچ پر نظر سے گزرا۔ کہا جاتا ہے کہ ایک روز مرحوم پروفیسر وزیر الحسن عابدی نے چپڑاسی سے چاک لانے کے لیے کہا کہ وہ بلیک بورڈ پر کچھ لکھ کر سمجھانا چاہتے تھے، چپڑاسی بہت سے چاک جھولی میں ڈال کر لے آیا اس سے پہلے کہ عابدی صاحب چپڑاسی کی ’چاک آوریپر ناراض ہوتے، انور مسعود  صاحب نے چپڑاسی کی جھولی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:
’سر! دامنِ صد چاک اِسی کو کہتے ہیں؟
ادبی مزاج کی چاشنی بھلا کیسے گنڈا پور سرکار کے ڈائیلاگز کا سامنا کرے؟  ظاہر ہے ادبی مزاج اس قدر بھاری سکرپٹ کے سامنے مانند پڑ جاتا ہے۔ لہذا گنڈاپور کو واسع پور پر بنی فلموں کے ایک سنگیت کے حوالے کر کے آپ سے اجازت چاہتے ہیں۔۔
ایک بغل میں چاند ہوگا
اک بغل میں روٹیاں
اک بغل میں نیند ہوگی
اک بغل میں لوریاں۔۔
اور بقول پھیجل؛
ہائے رے گنڈا پور۔۔۔! تمہیں  یاد کر کے ہاتھ دکھ گیا ہمارا۔

شیئر: