Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

26 ویں آئینی ترمیم کا مستقبل دیگر ترامیم سے کیسے مختلف ہو سکتا ہے؟

ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں ہونے والی پانچویں آئینی ترمیم میں سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کو آرٹیکل 199 کے تحت احکامات جاری کرنے سے منع کر دیا گیا تھا۔ (فائل فوٹو: ایکس)
ایک ماہ سے زیادہ دورانیے پر مشتمل سیاسی ہیجان خیزی اور قانونی موشگافیوں کے مقابلوں کا نتیجہ بالآخر آئین میں 26 ویں ترمیم کی صورت نکل آیا ہے ۔
نصف صدی سے ایک برس زیادہ کی عمر والے آئین پاکستان میں غیرمعمولی سیاسی اور قانونی نتائج اور اثرات والی اکثر ترامیم کی منظوری کا پس منظر اور پیشِ منظر ہمیشہ سے ہنگامہ خیز رہا ہے۔
اعلٰی عدلیہ میں تقرریوں کے طریقہ کار اور عدلیہ کے فیصلوں سے سیاسی نظام پر پڑنے والے اثرات ہر دور میں بحث و مباحثے کا موضوع رہے ہیں۔
پارلیمنٹ اور عدلیہ کے درمیان کشمکش میں اختیارات کا پلڑا دونوں اطراف کبھی ہلکا اور کبھی بھاری ہوتا رہا ہے ۔
گذشتہ رات سینیٹ اور قومی اسمبلی میں حکومتی اتحاد کے رہنماؤں کی تقاریر میں جلی اور خفی طور پر ایک بات کی جھلک ملتی ہے، وہ یہ کہ موجودہ ترامیم عدالتی فیصلوں سے سیاسی نظام کو لگنے والی چوٹوں کا ردعمل ہیں۔
ماضی اور حال کی آئینی ترامیم کا تقابلی جائزہ پاکستان کے دستوری اور سیاسی نظام کے خمیر میں پائے جانے والے تفاوت اور تضادات سے روشناس کرواتا ہے۔ جس کا تعلق عدلیہ اور انتظامیہ کے درمیان کبھی خاموش اور کبھی کُھلم کُھلا کشمکش اور اختیارات تک رسائی کی خواہش سے ہے۔

ججز کی عمر کا تنازع

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ کی عمر کا تعین اور ان کے عہدے کی معیاد 26 ویں ترمیم میں متعین کی گئی ہے۔
اس ترمیم کا مسودہ تیار کرنے والوں نے شاید آئین پاکستان کی پانچویں ترمیم سے رہنمائی لی ہو۔
سینیئر قانون دان حامد خان اپنی کتاب ’پولیٹیکل اینڈ کانسٹیٹیوشنل ہسٹری آف پاکستان‘ میں ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں ہونے والی پانچویں آئینی ترمیم کا پس منظر بیان کرتے ہیں۔
اس وقت پانچویں ترمیم میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی عمر کی بلائی حد 65 سال اور عہدے کی مدت پانچ سال طے کی گئی تھی۔ اسی طرح ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے عہدے کی مدت چار سال رکھی گئی تھی۔
پانچویں ترمیم میں سندھ اور بلوچستان کے لیے مشترکہ ہائی کورٹ کو تحلیل کر دیا گیا اور دونوں صوبوں کے لیے الگ الگ ہائی کورٹس قائم ہوئیں۔
اس ترمیم میں سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کو آرٹیکل 199 کے تحت احکامات جاری کرنے سے منع کر دیا گیا تھا۔ یوں کسی بھی شہری کی نظربندی ختم کرنے، اس کے خلاف اندراج مقدمہ کو روکنے اور عبوری ضمانت کے حق کو سلب کر دیا گیا تھا۔
اس ترمیم کی رو سے ہائی کورٹ کے جج کا تبادلہ کسی بھی دوسرے ہائی کورٹ میں اس کی مرضی اور متعلقہ چیف جسٹس کی مشاورت کے بغیر ایک سال کے لیے کرنے کا قانونی جواز مہیا کیا گیا تھا۔

حامد خان نے اپنی کتاب ’پولیٹیکل اینڈ کانسٹیٹیوشنل ہسٹری آف پاکستان‘ میں ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں ہونے والی پانچویں آئینی ترمیم کا پس منظر بیان کیا ہے۔ (فوٹو: آکسفورڈ)

اس دور کی اپوزیشن نے اسے عدلیہ کے اختیارات پر قدغن سے تعبیر کیا اور بنیادی حقوق پر قانونی بندشوں کے خلاف پارلیمنٹ میں احتجاج کیا۔ یوں تاریخ میں پہلی بار سارجنٹ ایٹ آرمز کے ذریعے اپوزیشن رہنماؤں کو اسمبلی سے باہر نکال دیا گیا۔
حالیہ تاریخ میں 18 ویں آئینی ترمیم کے بعد اس کی کچھ شقوں کو تبدیل کر کے ہونے والی 19 ویں ترمیم کا اکثر تذکرہ کیا جاتا ہے۔ مگر بہت کم قارئین کے علم میں ہو گا کہ پانچویں اور چھٹی ترمیم کا تعلق بھی کچھ ایسا ہی تھا۔
بھٹو حکومت نے چھٹی آئینی ترمیم کے ذریعے اپنی گذشتہ ترمیم میں ججوں کی ریٹائرمنٹ کی عمر کے قواعد بدل ڈالے تھے۔
اس کی بنیادی شق میں تبدیلی کے ذریعے یہ کہا گیا کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جو 65 سال کی ریٹائرمنٹ کی عمر اور چیف جسٹس ہائی کورٹ جو 62 برس کی عمر کو پہنچ چکے ہیں، اگر ان کی مدت عہدہ بالترتیب پانچ سال اور چار سال پوری نہیں ہوئی تو وہ اپنے عہدے پر فرائض انجام دیتے رہیں گے۔
اس کی ایک اور مثال سنہ 2002 میں فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف کے دور میں ایل ایف او کے ذریعے ججوں کی ریٹائرمنٹ کی عمر میں دی جانے والی توسیع بھی تھی۔ اس کے مطابق سپریم کورٹ کے جج کی عمر 65 سے 68 برس کر دی گئی۔ وکلا کی نمائندہ تنظیموں نے اس ضابطے کے خلاف احتجاجی تحریک شروع کی۔
اس قانون کا فائدہ سابق چیف جسٹس شیخ ریاض نے اٹھایا۔ انہوں نے آٹھ مارچ 2003 کو ریٹائرڈ ہونا تھا، مگر ان کی مدت ملازمت میں اضافہ ہو گیا۔ اس روز ملک بھر میں وکلا نے یوم سیاہ منایا۔
حامد خان کے مطابق ’شیخ ریاض نے نو جون 2003 کو سپریم کورٹ کی عمارت میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی لائبریری اور دفتر کو بند کر کے اس احتجاج کا بدلہ لیا۔‘

جنرل پرویز مشرف کے دور میں ایل ایف او کے ذریعے ججوں کی ریٹائرمنٹ کی عمر میں دی جانے والی توسیع کا فائدہ سابق چیف جسٹس شیخ ریاض نے اٹھایا۔ (فوٹو: ڈان)

بعد میں 17 ویں ترمیم میں ایل ایف او کی یہ شق آئینی پیکج میں شامل نہ ہو سکی۔ یوں جنوری 2004 میں شیخ ریاض کو چیف جسٹس کا عہدہ چھوڑنا پڑا اور ناظم الدین صدیقی چیف جسٹس آف پاکستان بنے۔

اعلٰی عدلیہ میں ججوں کی تقرری کا اختیار کس کا؟

26 ویں ترمیم میں اعلٰی عدلیہ میں ججوں کی تقرری کے لیے قائم جوڈیشل کمیشن کی ہیت میں تبدیلی کر دی گئی ہے۔ اب اس میں سپریم کورٹ کے پانچ ججوں کے علاوہ قومی اسمبلی اور سینیٹ کے ارکان سمیت دیگر آٹھ ممبران کو شامل کر دیا گیا ہے۔
اس ترمیم میں سرگرم کردار ادا کرنے والے پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے بقول ججز کی تقرری کے طریقہ کار کو آٹھویں ترمیم سے ہم آہنگ کر دیا گیا ہے۔
اپریل 2010 میں ہونے والی 18 ویں ترمیم میں پہلی دفعہ جوڈیشل کمیشن کے ذریعے ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ میں ججز کی تقرری اور تعیناتی کا نظام وضح کیا گیا تھا۔
اس ترمیم کی خالق پاکستان پیپلز پارٹی ماضی میں ججوں کی تقرری اور تبادلوں کے باعث تنقید کی زد میں رہی ہے۔
بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت کے دوران پیپلز پارٹی اور عدلیہ میں مخاصمت اور کھچاؤ کا ماحول رہا۔ اس کی وجوہات میں سجاد علی شاہ کو تین ججوں پر فوقیت دیتے ہوئے سپریم کورٹ کا چیف جسٹس بنانا بھی شامل تھا۔
اسی طرح بے نظیر بھٹو کی حکومت نے سندھ اور لاہور ہائی کورٹس میں سپریم کورٹ کے ایڈہاک ججوں کو قائم مقام چیف جسٹس کے طور پر تعینات کیا۔ تاہم سپریم کورٹ نے ججز کیس میں حکومت کو سینیئر جج کو چیف جسٹس بنانے اور قائم مقام ججز کی تقرری واپس لینے کا حکم دیا۔

بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت کے دوران پیپلز پارٹی اور عدلیہ میں مخاصمت اور کھچاؤ کا ماحول رہا۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

سابق صدر فاروق لغاری کے ہاتھوں بے نظیر حکومت کے خاتمے کی بیان کردہ وجوہات میں سے اعلٰی عدلیہ کے بارے میں سپریم کورٹ کا فیصلہ نہ ماننا بھی شامل تھا۔
پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کی برطرفی کے خلاف دائر درخواست کے فیصلے میں انہی کے تعینات کردہ چیف جسٹس سجاد علی شاہ نے قرار دیا کہ ’حکومت نے ججوں کی تعیناتی کے بارے میں فیصلے پر عمل درآمد نہیں کیا۔ نیز پیپلز پارٹی کی حکومت نے قومی اسمبلی میں بل کے ذریعے جج صاحبان کو ہراساں کرنے کے لیے قانون سازی کی کوشش کی۔‘
اس کیس میں صدر کی جانب سے حکومت کے خاتمے کی وجوہات بیان کرتے ہوئے ماورائے عدالت قتل اور امن و امان کی صورتحال کے بارے میں بطور ثبوت اخباری تراشے سپریم کورٹ میں جمع کروائے گئے۔
حالیہ آئینی ترمیم کی منظوری کے موقع پر بلاول بھٹو نے اپنی تقریر میں اسی واقعے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’ہماری حکومت کے خاتمے کے لیے اخباری تراشوں کو بطور ثبوت عدالت نے تسلیم کیا تھا۔‘

ترامیم جو ٹکراؤ تک لے گئیں

آئین میں موجودہ ترمیم کے مراحل سخت تناؤ اور عدلیہ اور اپوزیشن کے ساتھ ٹکراؤ کے خدشات میں طے ہوئے۔
پاکستان تحریک انصاف نے پارلیمنٹ کے اندر اور باہر 26 ویں ترمیم کی بھرپور مخالفت کی۔ اس کے رہنماؤں اور حامیوں کا خیال میں اس ترمیم سے عدلیہ کی ازادی کو زک پہنچے گی۔
ان ترامیم کی نیا پار لگانے میں حکومت سے بڑھ کر پاکستان پیپلز پارٹی پیش پیش تھی، جس کے چیئرمین بلاول بھٹو نے اپوزیشن کے دیگر گروہوں کے علاوہ حکومت اور نظام کے سخت نقاد مولانا فضل الرحمان کو بھی ترمیم کی حمایت پر آمادہ کیا۔

پاکستان تحریک انصاف نے پارلیمنٹ کے اندر اور باہر 26 ویں ترمیم کی بھرپور مخالفت کی۔ (فائل فوٹو: روئٹرز)

پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نے مل کر ایسے ہی سنہ 1997 میں آئین میں 13 ویں ترمیم کی تھی۔ آئین سے اسمبلیوں کی تحلیل کے اختیار والی شق 58 ٹو بی کے متفقہ خاتمے میں اپوزیشن کی حمایت کے باوجود ملک میں عدلیہ اور حکومت کے ٹکراؤ نے ہلچل مچا دی تھی۔
اس دور کے صدر فاروق لغاری اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ اس ترمیم کے مخالف تھے۔ ان کی جانب سے کسی ممکنہ ردعمل کے خوف سے چار اپریل 1997 کو بھی رات گئے یہ ترمیم منظور کروائی گئی، مگر اس کے باوجود سپریم کورٹ نے اسے پھر بھی معطل کر دیا۔
پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کی دو تہائی اکثریت کے ساتھ نواز شریف نے جولائی 1997 کو فلور کراسنگ کے خاتمے کے لیے آئین میں 63 اے کا اضافہ کیا۔ اس طرح 14 ویں ترمیم کے ذریعے وفاداری تبدیل کرنے والے رکن پارلیمنٹ کی نااہلی کا طریقہ کار متعین کیا گیا۔
اس دور کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے اس ترمیم کو بھی معطل کر دیا تھا۔ جس پر مسلم لیگ اور اس کی اتحادی جماعتوں کا شدید ردعمل سامنے آیا۔ اسے پارلیمنٹ کے بالادستی اور خود مختاری پر حملہ قرار دیا گیا۔
اس وقت کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ نے وزیراعظم کو توہین عدالت کیس میں طلب کر لیا۔ 17 اور 18 نومبر کو نواز شریف نے سپریم کورٹ میں پیش ہو کر غیرمشروط معافی طلب کی۔ مگر اسمبلی توڑنے کے اختیار سے محروم ہونے والے صدر فاروق لغاری سجاد علی شاہ کے ساتھ کھڑے ہو گئے جس نے ٹکراؤ اور سپریم کورٹ پر حملے جیسے واقعات کو جنم دیا۔
13 ویں ترمیم کے ذریعے اسمبلیوں کی تحلیل کا جو اختیار صدر سے لے لیا گیا تھا وہ سنہ 2003 میں 17 ویں ترمیم کے ذریعے فوجی حکمران پرویز مشرف نے واپس چھین لیا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے 18 ویں ترمیم میں صدر کو ایک بار پھر اس طاقت سے محروم کیا۔

سنہ 2003 میں 17 ویں ترمیم کے ذریعے فوجی حکمران پرویز مشرف نے اسمبلیوں کی تحلیل کا صدارتی اختیار واپس لے لیا۔ (فوٹو: سکرین گریب)

مارشل لا سے نجات دلانے والی ترامیم

آئین پاکستان میں آٹھویں اور 18 ویں ترامیم ملک میں طویل مارشل لا کے بعد نیم جمہوری نظام کی طرف مراجعت کے لیے متعارف کروائی گئی۔
30 دسمبر 1985 کو پاکستان کی تاریخ کے طویل ترین مارشل لا کا خاتمہ آٹھویں ترمیم کی منظوری کے بعد ہوا۔
ضیا الحق نے سنہ 1973 کے آئین کے ساتھ آزادانہ چھیڑ چھاڑ اور اپنے احکامات کے ذریعے اس میں اضافے سے ریاست کے اعلٰی ترین قانون کے چہرے کو مکمل طور پر تبدیل کر دیا۔
پارلیمانی اور صدارتی، دونوں طرز حکومت کے عناصر کو شامل کرنے کے عمل نے آٹھویں ترمیم کے ذریعے صدارتی نظام حکومت کے حق میں اختیارات کا توازن کر دیا۔ اس ترمیم نے وزیراعظم کے رتبے میں کمی کر دی اور اسے صدر کی خواہشات کے تابع بنا دیا۔ آٹھویں ترمیم میں کل 18 آرٹیکلز میں ترامیم ،اضافہ، تبدیلی یا اسے حذف کیا گیا۔
26 ویں ترمیم میں اپوزیشن اور حکومتی اتحاد آئینی بل پر متفق نہ ہو سکے، مگر دونوں بیک زبان جس چیز پر متفق نظر آئے وہ تھی مولانا فضل الرحمان کی کوششوں کی تحسین اور ان کے مفاہمانہ کردار کی توصیف۔ مگر آج سے ٹھیک 21 برس قبل یہی جماعتیں مولانا فضل الرحمان کے سیاسی کردار کی ناقد تھیں۔ اس کی وجہ بھی ایک آئینی ترمیم میں ان کا کردار تھا، یہ 17 ویں ترمیم تھی۔
17 ویں ترمیم بھی سنہ 1973 کے آئین کے ساتھ فوجی حکمران پرویز مشرف کے دور میں غیرجمہوری پیوند کاری کے بعد جزوی بحالی کا ذریعہ بنی۔
سنہ 2002 کے الیکشن سے وجود میں آنے والی اسمبلی میں ایک سال تک اپوزیشن نے ایل ایف او کے خلاف احتجاج جاری رکھا، جس نے حکومت کو مذاکرات پر مجبور کیا۔

26 ویں ترمیم میں اپوزیشن اور حکومتی اتحاد بیک زبان جس چیز پر متفق نظر آئے وہ مولانا فضل الرحمان کی کوششوں کی تحسین تھی۔ (فائل فوٹو: سکرین گریب)

26 دسمبر 2003 کو مسلم لیگ ق اور اس کے اتحادیوں نے ایک آئینی پیکج کے معاہدے پر مولانا فضل الرحمان کی سربراہی والی ایم ایم اے کے ساتھ اتفاق کرتے ہوئے دستخط کیے۔
پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن اور دیگر جماعتوں نے لیگل فریم ورک آرڈر کو آئین کا حصہ بنانے کی مخالفت کی۔ حکومت ایم ایم اے کو مطمئن کرنے کے لیے 29 دسمبر کو ترامیم کا نظر ثانی بل لے آئی۔ اگلے روز یہ بل سینیٹ سے بھی پاس ہو گیا۔ اس ترمیم کے ذریعے ایل ایف او میں سپریم کورٹ کے ججوں کی عمر میں تین سال کا اضافہ واپس لے لیا گیا۔

آئینی ترمیم کا مستقبل

ماضی میں ہونے والی آئینی ترامیم کو سپریم کورٹ کی طرف سے معطل یا قبول کیے جانے کی مثالیں موجود ہی ۔
موجودہ ترامیم کے حوالے سے کچھ حلقوں میں یہ خیال پایا جاتا ہے کہ سپریم کورٹ اس کی بعض شقوں کا از سرنو جائزہ لے سکتی ہے۔
اگرچہ سپریم کورٹ میں آئینی بینچ کے قیام اور چیف جسٹس کی تقرری کے لیے قائم خصوصی پارلیمانی کمیٹی کے ہیت اور اختیارات کے بعد صورتحال ماضی سے قدرے مختلف ہو چکی ہے۔ آئین پاکستان میں کی جانے والی دو ترامیم ایسی ہیں جن کے خلاف دائر اپیلوں کا فیصلہ طویل عرصے بعد ہوا۔
آٹھویں ترمیم کے خلاف کی جانے والی رٹ محمود خان اچکزئی کیس کے نام سے جانی جاتی ہے۔ اس کیس کا فیصلہ سنہ 1996 میں پیپلز پارٹی حکومت کے خاتمے کے کیس کے دوران دیا گیا اور سپریم کورٹ نے اسے آئینی قرار دیا۔
18 ویں ترمیم کے خلاف سنہ 2010 میں دائر ہونے والی اپیل کا عبوری حکم اکتوبر 2010 میں سامنے آیا۔ جس میں فل کورٹ نے حکومت کو جوڈیشل کمیشن میں تبدیلی کا مشورہ دیا جسے 19 ویں ترمیم میں آئین کا حصہ بنایا گیا۔

سنہ 1997 میں اس وقت کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ نے وزیراعظم نواز شریف کو توہین عدالت کیس میں طلب کر لیا تھا۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

اس کے بعد افتخار محمد چوہدری کے دور میں اس کیس کی سماعت ہی نہیں ہوئی۔ طویل عرصے بعد سنہ 2015 میں جسٹس ناصر الملک نے اسے آئین کے مطابق قرار دیا۔
13 ویں ترمیم کو سجاد علی شاہ نے معطل کر دیا تھا۔ ان کی رخصتی کے بعد چیف جسٹس اجمل میاں کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے سات رکنی بینچ نے اس کی سماعت کی۔ جس کے دوران نہ تو درخواست گزار اور نہ ہی ان کے وکیل پیش ہوئے۔ یوں 16 مارچ 1998 کو عدم پیروی کی بنیاد پر یہ درخواست خارج ہو گئی۔
اسی طرح چیف جسٹس اجمل میاں کی سربراہی میں سات رکنی بینچ نے 14 ویں ترمیم کو جسے سجاد علی شاہ نے معطل کیا تھا، ایک کے مقابلے میں چھ کے اکثریتی فیصلے سے قانون کے مطابق قرار دیا تھا۔
آئین کے آرٹیکل 183 کے تحت 2002 کے ایل ایف او اور 17 ویں آئینی ترمیم کو بھی سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا۔ اپریل 2005 میں چیف جسٹس ناظم حسین صدیقی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے ایک مجموعی فیصلے کے ذریعے ان تمام درخواستوں کو مسترد کر دیا تھا۔
26 ویں آئینی ترمیم کا مستقبل کیا ہوگا اس کے بارے میں فِلحال یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ مگر ماضی کے واقعات کی روشنی میں شاید یہ کہنا غلط نہ ہو کہ ادارہ جاتی کشمکش میں حالات اور پس پردہ محرکات کے تبدیل ہونے سے کسی بھی تبدیلی کو خارج از امکان نہیں قرار دیا جا سکتا۔

شیئر: