Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

لاہور کے مبینہ ریپ کیس کی ’فیک نیوز‘ دینے والے ملزمان تاحال پولیس کی پہنچ سے دور

نجی کالج کی پنجاب بھر میں برانچز جمعرات کو کھول دی گئیں جو کہ پچھلے 10 دن سے ان ہنگاموں کے باعث بند کر دی گئی تھیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں گذشتہ ہفتہ بہت بھاری رہا ہے۔ اور اس کی وجہ سوشل میڈیا پر ایک نجی کالج میں مبینہ ریپ کی خبریں گردش کرنے کے بعد ہنگامے پھوٹ پڑے۔
لاہور میں ہی اس نجی کالج کی دو برانچوں میں توڑ پھوڑ کی گئی اور عمارتوں کو آگ لگائی گئی۔
نجی کالج کی پنجاب بھر میں برانچز جمعرات کو کھول دی گئیں جو کہ پچھلے 10 دن سے ان ہنگاموں کے باعث بند کر دی گئی تھیں۔
لاہور کی ایک برانچ میں ایک شہری جبار چوہدری کے دو بچے پڑھتے ہیں انہوں نے بتایا کہ ’میرے دونوں بچے آج دس دنوں کے بعد کالج گئے ہیں۔ اور انہوں نے بتایا ہے کہ آج بالکل ام شانتی رہی۔ کالج انتظامیہ نے بھی تمام والدین کو ایک تفصیلی ڈوزئیر بھیجا تھا جس میں بتایا گیا تھا کہ یہ سب فیک نیوز کی وجہ سے ہوا۔ اور اس میں کچھ نئی گائیڈ لائنز بھی تھیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’میرے بچوں نے بتایا کہ کالج انتظامیہ پہلے سے زیادہ مستعد نظر آئی۔ سکیورٹی گارڈز کو یونیفارم نہیں پہنائے گئے تھے لیکن ان کی تعداد زیادہ تھی۔ جبکہ جو بچے احتجاج میں متحرک تھے وہ بھی پہلے دن خاموش رہے۔‘
دس روز بعد کالج کے تمام برانچز کھلنے کے بعد صوبہ بھر میں کسی جگہ بھی احتجاج رپورٹ نہیں ہوا۔ دوسری طرف ان واقعات کے درجنوں مقدمات درج ہیں۔ صرف لاہور میں چار مقدمے پولیس اور ایک ایف آئی اے کے پاس درج ہے۔
لاہور پولیس کے مطابق ابھی تک سوشل میڈیا پر جھوٹی خبروں کو پھیلانے والے دس سے زائد افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔
پولیس کو اس وقت دوطرح کے افراد مطلوب ہیں ایک وہ جو سوشل میڈیا پر یہ خبریں پھیلانے والے تھے اور دوسرے وہ جنہوں نے توڑ پھوڑ کی۔
 لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ پولیس اور ایف آئی اے ابھی تک ان افراد کو شناخت کرنے میں ناکام رہی ہیں جنہوں نے سب سے پہلے ایک انسٹاگرام کی پوسٹ کے ذریعے اس مبینہ ریپ کی خبر کو پوسٹ کیا تھا۔

لاہور میں اس نجی کالج کی دو برانچوں میں توڑ پھوڑ کی گئی اور عمارتوں کو آگ لگائی گئی۔ (فوٹو: سکرین گریب)

ایس ایس پی انوسٹیگیشن لاہور محمد نوید کے مطابق ’ہم نے دس سے زیادہ ایسے افراد کو حراست میں لیا ہے جنہوں نے لوگوں کو اشتعال دلانے کی کوشش کی۔ ان کے خلاف سوشل میڈیا سے شواہد بھی اکھٹے کیے گئے ہیں۔ جبکہ اس کیس کو ایف آئی اے بھی دیکھ رہی ہیں۔ فیک نیوز سے متعلق اصل اختیارات تو انہی کے ہیں اور ہماری ٹیمیں ان کی بھی معاونت کر رہی ہیں۔‘
جبکہ ایف آئی اے بھی ابھی تک ان پانچ انسٹا گرام اکاؤنٹس کے چلانے والوں کو ٹریس نہیں کر سکی ہے، جن پر سب سے پہلے یہ خبر پوسٹ کی گئی تھی۔ جبکہ 30 کے لگ بھگ صحافیوں اور یوٹیوبرز پر جو مقدمہ درج کیا گیا تھا ان کی اکثریت نے عبوری ضمانتیں کروا رکھی ہیں۔
تاہم یہ بھی وہ افراد تھے جنہوں نے ’خبر‘ منظر عام پر آنے کے بعد اس پر اپنی رائے دی تھی۔ یہ بات ابھی بھی معمہ ہے کہ سب سے پہلی خبر چلانے والے کون ہیں۔

شیئر: