پرانے موبائل فون میں موجود ایک تصویر آپ کو کیسے مصیبت میں ڈال سکتی ہے؟
پرانے موبائل فون میں موجود ایک تصویر آپ کو کیسے مصیبت میں ڈال سکتی ہے؟
جمعہ 25 اکتوبر 2024 5:24
زین علی -اردو نیوز، کراچی
حنا کا موبائل فون خریدنے والے شخص نے کچھ عرصے کے بعد ایک سوفٹ ویئر کے ذریعے اسے ری سیٹ کرلیا (فائل فوٹو: اے ایف پی)
کراچی کی نجی جامعہ کے شعبہ ابلاغ عامہ کی 24 سال کی طالبہ حنا ہمدانی ایک روز صبح جب اپنی کلاس کے لیے تیار ہو رہی تھیں تو انہیں ایک فون کال موصول ہوئی۔
ان کی دوست حمیرا جاوید نے گھبراہٹ کی کیفیت میں اُنہیں کال کی اور جلد بازی کے لہجے میں اُن سے پوچھا کہ وہ کہاں ہیں؟
حنا نے جواب دیا وہ اپنے گھر پر ہیں اور یونیورسٹی جانے کے لیے تیار ہو رہی ہیں، حمیرا نے بتایا کہ کسی نے اُن کی تصاویر سوشل میڈیا پر شیئر کردی ہیں۔
حمیرا نے حنا سے کہا کہ انہوں نے فیس بُک پر بنائے گئے اُن کے جعلی اکاؤنٹ کے کچھ سکرین شاٹس بھی اُنہیں واٹس ایپ پر بھیج دیے ہیں۔
حنا کے لیے یہ خبر پریشان کن تھی، لہٰذا انہوں نے فوراً اپنا فون چیک کیا، جیسے ہی واٹس ایپ میسج کھولا تو دیکھا کہ فیس بُک کے ایک اکاؤنٹ سے کسی نے اُن کی تصاویر پوسٹ کی ہیں۔
ان کا تعلق ایک مذہبی گھرانے سے ہے، اور ان کے لیے یہ بات ناقابل برداشت تھی کہ ان کی تصاویر سوشل میڈیا پر عام ہوں، خاص طور پر اُن کی مرضی کے بغیر۔
حنا نے فوراً اپنی سینیئر ٹیچر سے اس معاملے کا ذکر کیا، ٹیچر نے انہیں ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ سے رابطہ کرنے کا مشورہ دیا۔
انہوں نے اپنے والدین کو بھی اس صورت حال سے آگاہ کیا۔ ان کے والد محمد الطاف نے اپنی بیٹی کو اس حوالے سے مکمل تعاون کا یقین دلایا اور سائبر کرائم ونگ کی مدد سے اس جعلی اکاؤنٹ کو ختم کرنے کے لیے کوششیں شروع کردیں۔
حنا کے والد اور ان کے اہل خانہ نے سائبر کرائم ونگ کی مدد سے تین ماہ کی محنت اور کوشش کے بعد اِس اکاؤنٹ کے بارے میں پتا لگا لیا۔
ہوا دراصل یوں کہ حنا کی سالگرہ اور امتحان میں نمایاں کارکردگی پر اُن کے والد نے انہیں ایک نیا موبائل فون خرید کر تحفے میں دیا تھا۔
تین بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹی حنا نے نیا موبائل فون ملنے کے بعد اپنا پُرانا استعمال شدہ فون اپنے بھائی کے ذریعے موبائل فون کی دکان پر فروخت کردیا تھا۔
حنا کے مطابق انہوں نے فون فروخت کرنے سے قبل تمام تر احتیاطی تدابیر اپناتے ہوئے اس کی میموری کو کلیئر کیا، فون کو فیکڑی ری سیٹ کیا اور تسلی کر لینے کے بعد اسے فروخت کرنے کے لیے دیا۔
حنا اور ان کا بھائی یہ نہیں جانتے تھے کہ استعمال شدہ موبائل فون کو فیکڑی ری سیٹ کرنے کے بعد بھی موبائل فون کا ڈیٹا ریکور کیا جا سکتا ہے۔
ان کا موبائل فون جس شخص نے خریدا اس نے کچھ عرصے کے بعد فون کو ایک سوفٹ ویئر کے ذریعے ری سیٹ کرلیا۔
اس طرح موبائل میں موجود حنا اور ان کی دوستوں کی تصاویر اور ڈیٹا اس شخص کے ہاتھ لگ گیا اور اس نے ایک جعلی آئی ڈی بنا کر وہاں یہ تصاویر شیئر کردیں۔
آئی ٹی ایکسپرٹ شمیم ردا کے مطابق ایسے واقعات آئے روز سننے کو ملتے ہیں جس میں شہری یہ شکایت کرتے نظر آتے ہیں کہ ان کا ڈیٹا لیک ہوگیا ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ ’ان کی تصاویر اور ویڈیوز ان کی اجازت کے بغیر سوشل میڈیا پر شیئر ہو رہی ہیں۔ ایسے واقعات اکثر شہریوں کی معمولی سی غلطی کی وجہ سے پیش آتے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ کئی بار ہم اپنا استعمال شدہ موبائل فون یا میموری کارڈ یہ سوچے سمجھے بغیر مارکیٹ میں بیچ دیتے ہیں کہ اس میں سیو کیا گیا ڈیٹا کوئی بھی ریکور کرسکتا ہے۔ جدید دور میں ایسے کئی سوفٹ ویئرز موجود ہیں جن کے ذریعے ڈیٹا ریکور کیا جاسکتا ہے۔
’ڈیٹا ریکوری کے سوفٹ ویئر اس لیے بنائے گئے تھے کہ اُن کا مثبت استعمال کرتے ہوئے کسی بھی نقصان سے بچا جا سکے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ جہاں اس کا مثبت سمت میں استعمال ہو رہا ہے وہیں بعض افراد اس کا غلط استعمال بھی کر رہے ہیں۔‘
ان کے مطابق کئی واقعات میں اس سوفٹ ویئر نے لوگوں کو بڑے نقصان سے بچایا ہے تو بعض واقعات ایسے بھی سامنے آئے ہیں کہ اس سے لوگوں کو پریشانی کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے۔
سائبر سکیورٹی اور ڈیٹا سکیورٹی کے امور کے ماہر نعمان سعید نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اس وقت دنیا میں ڈیٹا سکیورٹی ایک اہم مسئلہ ہے۔
’پاکستان سمیت دنیا بھر میں اب تیزی سے چیزیں انفارمیشن ٹیکنالوجی کی طرف جا رہی ہیں، بینک اکاؤنٹ سے لے کر پرسنل معلومات تک ہر چیز ہمارے موبائل فون میں موجود ہے۔‘
ان کے مطابق ’ایسے میں جہاں آسانیاں پیدا ہو رہی ہیں وہیں کچھ مشکلات بھی سامنے آرہی ہیں۔ ان میں ڈیٹا سکیورٹی سمیت دیگر امور شامل ہیں۔‘
نعمان سعید نے بتایا کہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کی جانب سے ڈیٹا سکیورٹی کے لیے سیل بھی قائم کیے گئے ہیں، اس کے علاوہ ہر ممکن اقدامات کیے جا رہے ہیں تاکہ ڈیٹا کو محفوظ رکھا جا سکے۔
’تاہم گھریلو صارفین اس معاملے میں کوتاہی برتتے ہیں۔ اس کی ایک چھوٹی سی مثال یہ ہے کہ کوئی بھی استعمال شدہ ڈیٹا، ہارڈ ڈسک، میموری کارڈ اور موبائل فون سمیت دیگر استعمال شدہ آلات کو مارکیٹ میں فروخت کردیا جاتا ہے جو کسی خطرے سے خالی نہیں ہے۔‘
انہوں نے کہا کوشش کریں کہ ان اشیا کو مارکیٹ میں فروخت کرنے کے بجائے اپنے استعمال میں ہی رکھیں۔ یا پھر انہیں ناقابل استعمال بنا کر پھینک دیں۔
جامعہ کراچی شعبہ جرمیات کی چیئرپرسن پروفیسر ڈاکٹر نائمہ سعید نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ عام طور پر یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ شہری بغیر سوچے سمجھے اپنے موبائل فون یا میموری کارڈز کسی بھی اجنبی کو فروخت کردیتے ہیں۔
ڈاکٹر نائمہ سعید کا کہنا تھا کہ انہیں بعد میں معلوم ہوتا ہے کہ کسی نے ان کا ڈیٹا ریکور کرلیا ہے اور اس لیے اب انہیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ شعبہ جرمیات اس اہم مسئلے پر شہریوں کو ناصرف آگاہی فراہم کر رہا ہے بلکہ اس کی روک تھام کے لیے بھی کام کر رہا ہے۔
ڈاکٹر نائمہ سعید کہتی ہیں کہ ’یونیورسٹی کی سطح پر طلبہ و طالبات کو اس بارے میں پڑھایا جا رہا ہے کہ آپ کا ڈیٹا آپ کی ذمہ داری ہے۔ اس کا غلط استعمال روکنا بھی آپ کی ذمہ داری ہے۔‘
’ہمارے سامنے ایسے کئی واقعات آئے ہیں جن میں طالبات یہ شکایت کرتی نظر آتی ہیں کہ ان کی تصاویر اور ویڈیوز کسی فیک آئی ڈیز سے پوسٹ ہو رہی ہیں، کون پوسٹ کر رہا ہے اور ڈیٹا کیسے حاصل کیا گیا انہیں معلوم نہیں ہوتا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ جب تحقیقات کی جاتی ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان لڑکیوں کی معمولی سی غلطی کی وجہ سے ہی ان کا ڈیٹا ان کی ڈیوائسز کے ذریعے لیک ہو جاتا ہے۔
وفاقی تحقیقاتی ادارے ( ایف آئی اے) کے سائبر کرائم ونگ کے مطابق انہیں سینکڑوں کی تعداد میں ایسی شکایات موصول ہوئی ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ شہریوں کی مرضی کے بغیر اُن کا ڈیٹا انٹرنیٹ پر شیئر کیا گیا ہے۔
ایف آئی اے کے ترجمان نے بتایا کہ شہریوں کی شکایات کے ازالے کے لیے تمام وسائل بروئے کار لاتے ہوئے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
’کئی بار ایسے کیسز سامنے آتے ہیں جن میں درخواست گزار کے قریبی رشتہ دار یا دوست ہی اُن کا ڈیٹا لیک کرنے میں ملوث پائے جاتے ہیں، ان کے علاوہ ایسے بھی واقعات سامنے آتے ہیں جن میں شہریوں کی ڈیوائسز سے ڈیٹا لیک ہوتا ہے۔‘
ایف آئی اے کے ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ سائبر کرائم کا شعبہ ایسے تمام واقعات کے خلاف ناصرف کام کر رہا ہے بلکہ اِن سے بچنے کے لیے وقتاً فوقتاً آگاہی بھی فراہم کرتا رہتا ہے۔