Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

چین کے صدر کی ایرانی ہم منصب سے ملاقات، تعلقات بڑھانے کا عہد

صدر شی جن پنگ نے کہا کہ ایران کے ساتھ غیرمتزلزل دوستانہ تعاون کو فروغ دیں گے۔ فوٹو: اے ایف پی
چین کے صدر شی جن پنگ نے ایرانی ہم منصب مسعود پزشکیان کے ساتھ ملاقات میں دونوں ممالک کے درمیان تعلقات بڑھانے کے عہد کا اظہار کیا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے چین کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ژنہوا کے حوالے سے کہا ہے کہ صدر شی نے عہد کیا کہ ’چاہے بین الاقوامی اور علاقائی صورتحال کسی بھی طرح سے تبدیل ہو، چین ایران کے ساتھ غیرمتزلزل دوستانہ تعاون کو فروغ دے گا۔‘
روس کے شہر کازان میں برکس ممالک کے سربراہی اجلاس کے دوران ایرانی صدر مسعودی پزشکیان کی چینی صدر شی جن پنگ کے ساتھ ملاقات ہوئی۔
دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کو فروغ دینے کے عہد کا ایسے وقت پر اظہار کیا ہے جب اسرائیل کی غزہ اور لبنان میں ایرانی حمایت یافتہ عسکریت پسندوں کے ساتھ جاری جنگ کے باعث مشرق وسطیٰ میں کشیدگی بڑھ رہی ہے جبکہ دوسری جانب اسرائیل، تہران کے حالیہ میزائل حملے کا جواب دینے کے لیے پرعزم ہے۔
بدھ کو برکس کانفرنس کے دوران ایرانی صدر نے رکن ممالک پر زور دیا کہ وہ ’غزہ اور لبنان میں جنگ ختم کروانے کے لیے اپنی انفرادی اور اجتماعی صلاحیتوں کو بروئے کار لائیں۔‘
کانفرنس سے خطاب میں صدر شی جن پنگ نے جنگ بندی کے مطالبے کو دہراتے ہوئے کہا کہ ’ہمیں ہلاکتوں کا سلسلہ بند کرنا ہوگا اور مسئلہ فلسطین کے جامع، منصفانہ اور دیرپا حل کے لیے انتھک کام کرنے کی ضرورت ہے۔‘
ایرانی صدر کے ساتھ ملاقات میں شی جن پنگ نے کہا کہ ’جلد جنگ بندی اور غزہ میں جنگ کا اختتام علاقائی کشیدگی کو کم کرنے کے لیے انتہائی اہم ہیں۔‘
صدر شی جن پنگ نے مزید کہا ’قومی خودمختاری، سلامتی اور قومی وقار کے تحفظ اور اپنی اقتصادی اور سماجی ترقی کو مستقل طور پر آگے بڑھانے میں چین ایران کی حمایت کرتا ہے۔‘
گزشتہ ماہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران صدر پزشکیان سے ملاقات میں چینی وزیر خارجہ وانگ یی نے بھی انہی خیالات کا اظہار کیا تھا۔
چین ایران کا قریبی شراکت دار ہونے کے علاوہ اس کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر بھی ہے اور پابندیوں کے باوجود ایرانی تیل کا سب سے بڑا خریدار ہے۔
ایران اور چین دونوں کو پابندیوں کی شکل میں مغربی ممالک کی جانب سے دباؤ کا سامنا ہے جبکہ حالیہ کچھ عرصے میں روس کے یوکرین پر حملے کے حوالے سے مؤقف پر بھی مخالفت دیکھنی پڑی ہے۔

شیئر: