انڈیا اور چین جو دنیا کی دو بڑی معاشی طاقتیں ہیں، فوجی و سفارتی کشیدگی کے باوجود مضبوط تجارتی تعلقات برقرار رکھے ہوئے ہیں۔
توقع ہے کہ اس معاہدے سے انڈیا میں چینی سرمایہ کاری کو فروغ ملے گا۔
انڈیا نے کہا ہے کہ دونوں رہنماؤں نے اپنے عہدیداروں کو دو طرفہ تعلقات کے تمام پہلوؤں کو مستحکم کرنے کے لیے مزید اقدامات کرنے کی ہدایت کی ہے۔
روس کے شہر کازان میں شی جن پنگ اور نریندر مودی کے درمیان ملاقات سے دو روز قبل نئی دہلی نے ایک بیان جاری کیا تھا۔
بیان میں کہا گیا تھا کہ اس نے لداخ کے ہمالیائی علاقے میں ’چار سال سے جاری فوجی تعطل کو ختم کرنے کے لیے‘ بیجنگ کے ساتھ ایک معاہدہ کیا ہے تاہم، دونوں فریقین نے اس معاہدے کی تفصیلات شیئر نہیں کیں۔
چین کے سرکاری نشریاتی ادارے سی سی ٹی وی کے مطابق ’چینی صدر شی جن پنگ نے انڈین وزیراعظم نریندر مودی سے کہا ہے کہ دونوں فریقین کو مواصلات اور تعاون کو مضبوط کرنا چاہیے، تنازعات اور اختلافات کو حل کرنا چاہیے اور ایک دوسرے کے ترقی کے خوابوں کو پورا کرنا چاہیے۔‘
سرکاری ادارے کے مطابق انڈیا کے وزیراعظم نے دو طرفہ تعلقات کو بہتر بنانے اور ترقی دینے کے لیے تجاویز پیش کیں جس پر چینی صدر نے اُصولی طور پر اتفاق کیا۔
نریندر مودی نے شی جن پنگ سے کہا کہ تعلقات کے لیے امن، استحکام، باہمی اعتماد اور احترام بہت ضروری ہیں۔
انڈیا کے سرکاری نشریاتی ادارے ’دوردرشن‘ پر نشر ہونے والے بیانات میں نریندر مودی نے شی جن پنگ کو بتایا کہ ’ہم گزشتہ چار برسوں میں سامنے آنے والے مسائل پر معاہدے کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ سرحد پر امن و سکون کو برقرار رکھنا ہماری ترجیح ہونی چاہیے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’باہمی اعتماد، باہمی احترام اور باہمی حساسیت ہمارے تعلقات کی بنیاد ہونی چاہیے۔‘
یاد رہے کہ مئی 2020 میں وادی گلوان میں انڈین اور چینی فوجیوں کے درمیان جھڑپ کے نتیجے میں 20 انڈین فوجی مارے گئے تھے جبکہ چار چینی فوجی بھی ہلاک ہوئے تھے۔
دونوں ممالک نے گذشتہ چار برسوں میں برفانی سرحد کے ساتھ ہزاروں فوجی تعینات کر دیے تھے۔
اس کے بعد سے دونوں رہنماؤں نے باضابطہ طور پر دو طرفہ بات چیت نہیں کی تھی۔ ان کی آخری دو طرفہ سربراہی بات چیت اکتوبر 2019 میں جنوبی انڈیا کے قصبے مملا پورم میں ہوئی تھی۔
نریندر مودی اور شی جن پنگ نے نومبر 2022 میں بالی میں ہونے والے جی20 سربراہی اجلاس کے موقع پر مختصر گفتگو کی تھی۔ انہوں نے اگست 2023 میں جوہانسبرگ میں برکس سربراہی اجلاس کے موقع پر دوبارہ بات کی تاہم گفتگو کے مختلف ورژن جاری کیے۔
شی جن پنگ نے نئی دہلی کی میزبانی میں جی 20 سربراہی اجلاس میں شرکت نہیں کی تھی جسے تعلقات کے لیے ایک اور دھچکا سمجھا جاتا ہے۔
حالیہ مہینوں میں سفارتی کوششوں میں اُس وقت تیزی آئی جب جولائی میں دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ کی ملاقات ہوئی اور سرحدی کشیدگی کو کم کرنے کے لیے بات چیت کو آگے بڑھانے پر اتفاق کیا گیا۔