اسرائیل اور حماس کا غزہ جنگ پر مذاکرات کے لیے آمادگی کا عندیہ
حماس کے عہدیدار نے کہا ہے کہ جنگ بندی معاہدے کے لیے اسرائیل کو غزہ کی پٹی سے نکلنا ہوگا۔ فوٹو: اے ایف پی
اسرائیل نے کہا ہے کہ غزہ جنگ بندی مذاکرات میں خفیہ ایجنسی کے سربراہ شرکت کریں گے جبکہ دوسری جانب حماس نے اس عہد کا اظہار کیا ہے کہ معاہدہ طے پانے کی صورت میں لڑائی بند کر دے گا۔
حماس کے ایک اعلٰی عہدیدار نے خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ گروپ کے دوحہ میں موجود رہنماؤں کے ایک وفد نے جمعرات کو قاہرہ میں مصری حکام کے ساتھ غزہ معاہدے کے حوالے سے ’خیالات اور تجاویز‘ پر بات چیت کی ہے۔
عہدیدار نے مزید بتایا کہ ’حماس نے لڑائی روکنے پر آمادگی کا اظہار کیا ہے لیکن اسرائیل کو بھی جنگ بندی پر عمل کرنا ہوگا، غزہ کی پٹی سے نکلنا ہوگا، نقل مکانی کرنے والوں کو واپس آنے دینا ہوگا، قیدیوں کے تبادلے پر سنجیدگی سے اتفاق کرنا ہوگا اور غزہ میں انسانی امداد کے داخلے کی اجازت دینا ہوگی۔‘
حماس عہدیدار نے بتایا کہ قاہرہ میں ہونے والی بات چیت جنگ بندی مذاکرات کو دوبارہ شروع کرنے کی کوششوں کا حصہ ہے۔
اسرائیلی وزیراعظم کے دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ قاہرہ میں ہونے والی ملاقاتوں کے بعد نیتن یاہو نے خفیہ ایجنسی موساد کے سربراہ سے اتوار کو قطر جانے کا کہا ہے ’تاکہ ایجنڈا پر موجود متعدد نکات کو آگے بڑھایا جا سکے۔‘
جمعرات کو امریکہ اور قطر نے کہا تھا کہ دوحہ میں غزہ جنگ بندی مذاکرات دوبارہ شروع ہوں گے۔
یروشلم میں اسرائیلی وزیراعظم نیتین یاہو اور سعودی عرب میں ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے ملاقات کے بعد انٹونی بلنکن جمعرات کو قطر پہنچے تھے انہوں نے خلیجی ریاست کے امیر تمیم بن حمد الثانی اور وزیراعظم محمد بن عبدالرحمان بن جاسم الثانی سے ملاقاتیں کی تھیں۔
گزشتہ سال 7 اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے حملے کے بعد سے انٹونی بلنکن کا خطے کا یہ گیارہواں سرکاری دورہ ہے۔
قطر میں حکام سے ملاقات کے بعد امریکی سیکریٹری خارجہ انٹونی بلنکن نے کہا تھا کہ ایک ’ایسے منصوبے کی کوشش ہے جس کے تحت اسرائیل نکل جائے، حماس کی تشکیل نو نہ ہو سکے اور تاکہ فلسطینی اپنی زندگیاں اور اپنا مستقبل ایک مرتبہ پھر تعمیر کر سکیں۔‘
انٹونی بلنکن نے ایک مرتبہ پھر اپنے مؤقف کو دہرایا کہ حماس کے سربراہ یحیٰ سنوار کی ہلاکت کے بعد جنگ بندی معاہدے کے لیے ایک موقع ملا ہے۔
اسرائیلی اور امریکی حکام کے علاوہ چند تجزیہ کاروں کے خیال میں یحیٰ سنوار یرغمالیوں کی رہائی کے لیے معاہدے میں اہم رکاوٹ تھے۔