سعودی عرب نے ایران پر فوجی حملے کی مذمت کرتے ہوئے حملے کو ایران کی خود مختاری اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔
خبر رساں ادارے ایس پی اے کے مطابق بیان میں مملکت نے تمام فریقین پر زور دیا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ تحمل کا مظاہرہ کریں اور کشیدگی کو کم کرنے کے لیے کام کریں اور خطے میں طویل فوجی تصادم کے سنگین نتائج سے خبردار کیا۔
سعودی عرب نے اپنے ٹھوس موقف کا اعادہ کرتے ہوئے خطے میں کشیدگی بڑھانے اور خطے کے ممالک کے امن و استحکام کو نشانہ بنانے والے اقدامات کو مسترد کیا۔
مملکت نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ امن کو فروغ دینے، تناؤ میں کمی اور مشرق وسطیٰ میں تنازعات کے خاتمے کی کوششوں کی حمایت میں اپنی ذمہ داریاں پوری کرے۔
سنیچر کی صبح، اسرائیل نے تہران کی جانب سے رواں ماہ ہونے والے حملوں کے جواب میں ایران میں فوجی تنصیبات پر حملہ کیا جس سے مشرق وسطیٰ میں وسیع جنگ چھڑنے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔
عرب ممالک کی مذمت
متحدہ عرب امارات نے بھی ایران پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے کشیدگی کو بڑھانے سے بچنے کے لیے ’زیادہ سے زیادہ تحمل‘ دکھانے کی اہمیت پر زور دیا ہے۔
امارات کی وزارت خارجہ سے جاری کیے گئے بیان میں فریقوں سے سفارتی ذرائع سے کشیدگی کو کم کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔
غزہ میں اسرائیل سے برسرِپیکار فلسطین کی اسلامی تحریک حماس نے بھی ایران کے خلاف ’صہیونی جارحیت‘ کی سخت مذمت کی ہے۔
ادھر قطر کی وزارت خارجہ نے اسرائیل کے ایران پر فضائی حملوں کی مذمت کرتے ہوئے تحمل اور بات چیت کے لیے کہا ہے تاکہ علاقے کی سلامتی و استحکام کو خطرہ نہ ہو۔
عمان جس نے ایران اور مغربی دنیا کے درمیان طویل عرصے تک ثالث کا کردار ادا کیا، نے کہا ہے کہ اسرائیل کے ایران پر حملے نے ’تشدد کو مزید ہوا دی ہے اور کشیدگی کو کم کرنے کی کوشش کو نقصان پہنچایا ہے۔‘
کویت اور لبنان کی خارجہ وزارتوں سے جاری بیانات میں بھی اسرائیل کے ایران پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے کشیدگی کو بڑھاوا دینے والے اقدامات سے گریز کے لیے کہا گیا ہے۔
دریں اثنا اردن نے کہا ہے کہ اس کی فضائی حدود سے کسی بھی فوجی طیارے کو گزرنے کی اجازت نہیں دی گئی جو علاقے میں کسی فریق سے تنازع کا شکار ہے۔
شام نے ایران سے یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’ایران کو اپنی خودمختاری اور اپنے شہریوں کی زندگی کو بچانے کے لیے اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔‘
مصر کے دفتر خارجہ نے بھی ایک بیان میں اسرائیل کے ایران پر حملے کو تشویشناک قرار دیتے ہوئے علاقائی استحکام کو ضروری قرار دیا ہے۔