Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ریاض: فیوچر انویسٹمنٹ انیشی ایٹو کانفرنس سے کیا توقعات ہو سکتی ہیں؟ فرینکلی سپیکنگ

ایف آئی آئی کی سالانہ کانفرنس ریاض میں 29 سے 31 کتوبر تک ہوگی۔ فوٹو: عرب نیوز
فیوچر انویسٹمنٹ انیشی ایٹو کی آٹھویں کانفرنس کا انعقاد سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں ہونے جا رہا ہے جس کے ایجنڈا میں مصنوعی ذہانت اور نئی ٹیکنالوجیز  سرِفہرست ہیں۔
عرب نیوز کے مطابق ’صحرا میں ڈیووس‘ کے نام سے جانے جانے والا فیوچر انویسٹمنٹ انیشی ایٹو (ایف آئی آئی) ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جہاں عالمی رہنما، چیف اگزیکٹوز اور پالیسی ساز صنعتوں، گورننس اور انسانیت کے مستقبل کی تشکیل کے لیے اکھٹے ہوتے ہیں۔
فیوچر انویسٹمنٹ انیشی ایٹو کانفرنس کا آغاز آئندہ روز 29 سے ریاض میں ہونے جا رہا ہے جو31 اکتوبر تک جاری رہے گی۔
ایف آئی آئی کے چیف ایگزیکٹو رچرڈ اٹیس نے عرب نیوز کے پروگرام ’فرینکلی سپینگ‘ کو انٹرویو میں بتایا کہ اگرچہ ماضی کی سالانہ کانفرنسز میں مالیاتی شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد شرکت کرتے رہے ہیں لیکن اس مرتبہ ٹیکنالوجی پر مبنی صنعتوں پر توجہ مبذول کی گئی ہے۔
’ہم بے حد خوش ہیں کہ اس مرتبہ ٹیکنالوجی انڈسٹری بشمول آرٹیفیشل انٹیلیجنس (اے آئی) سے وابستہ زیادہ سے زیادہ افراد شریک ہو رہے ہیں کیونکہ اب ہر طرف اے آئی ہے اور اے آئی ہی تمام صنعتوں اور شعبوں پر اثرانداز ہو رہا ہے۔‘
ایسے وقت میں جب صحت سے تفریح تک ہر شعبے میں نئی ٹیکنالوجیز کے باعث تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں، رچرڈ اٹیس کا کہنا ہے کہ ایف آئی آئی کی کوشش ہے کہ ٹیکنالوجی میں اختراع لانے والوں اور عالمی شخصیات کو اکھٹا کیا جائے تاکہ وہ ان اختراعات میں پیش رفت کے امکانات کو جانچ سکیں۔
’اگر آپ مجھ سے پوچھیں تو میں ایف آئی انسٹیٹیوٹ کی ایسی میراث چاہتا ہوں کہ جو ایک جامع پلیٹ فارم ہو اور جو روایتی معیشتوں کے عالمی چیف ایگزیکٹیوز اور نوجوان کاروباری افراد کے درمیان رابطے کا پل ہو۔‘
اپنے 39 سالہ کیریئر کے دوران رچرڈ اٹیس دو ہزار سے زائد تقریبات کا اہتمام کروا چکے ہیں جس میں ڈیووس میں ہونے والے ورلڈ اکنامک فورم کا سالانہ اجلاس، کلنٹن گلوبل انیشی ایٹو، نوبل لارئیٹ کانفرنس، نیویارک فورم اور یونیسکو این جی او فورم کا انعقاد شامل ہے۔

ایف آئی آئی کی کانفرنس کے ایجنڈے پر مصنوعی ذہانت سرِفہرست ہے۔ فوٹو: عرب نیوز

سال 2017 میں جب پہلی مرتبہ ایف آئی آئی کی بنیاد رکھی گئی تو کچھ شعبوں نے شکوک و شبہات کا بھی اظہار کیا۔ اکثر نے یہ بھی سوال اٹھایا کہ کیا دنیا کو ایک اور ایسے فورم کی ضرورت ہے جہاں کاروباری شخصیات اور سیاسی رہنما اکھٹے ہوں اور اس کے ساتھ ہی سعودی عرب کو بھی شک کی نگاہ سے دیکھا گیا کہ کیا یہ ایک بڑے ایونٹ کو کامیابی کے ساتھ منعقد کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
لیکن ایف آئی آئی نہ صرف اب تک قائم ہے بلکہ کامیابی کے ساتھ چل رہا ہے۔ گزشتہ سات سال کے عرصے میں کانفرنس کے توسط سے 128 ارب ڈالر کے معاہدے طے پائے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ ایف آئی آئی کا کردار تعلقات کے مواقع فراہم کرنے سے کہیں زیادہ بڑا ہے۔
رچرڈ اٹیس کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کا میزبان ملک کے طور پر انتخاب ایف آئی آئی کی کامیابی کی اہم وجہ ہے۔
’سعودی عرب یقیناً عالمی مرکز بن گیا ہے اور ہے بھی، میں یہ کہوں گا کہ یہ شمال اور جنوب اور مغرب اور مشرق کے درمیان (تعلقات) کو متحرک کرنے کا ذریعہ ہے۔ اگر آپ دنیا کا نقشہ دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ بہت اچھی جگہ پر واقع ہے۔‘
انہوں نے کہا ’ایف آئی آئی کے علاوہ مملکتِ سعودی عرب اب یقیناً ایک ایسی جگہ ہے جہاں صنعت، کان کنی، ایوی ایشن، لاجسٹکس اور ٹیکنالوجی کے مستقبل سے متعلق عالمی سطح کی بات چیت ہو رہی ہے۔‘
’وژن 2030 بہت ہی شاندار پروگرام ہے، اگر لوگ اس کو پڑھیں تو انہیں سمجھ آئے گی کہ یہ ملک مکمل تبدیلی کی راہ پر گامزن ہے، شاندار شعبوں کا قیام ممکن ہو رہا ہے جو معیشت کے تنوع میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔ اور مملکت تیل پیدا کرنے والی معیشت سے متنوع معیشت کی طرف بڑھ رہا ہے۔ لہٰذا ان پلیٹ فارمز پر اُن تمام شعبوں سے متعلق عالمی سطح کی بات چیت ہوتی ہے جو معیشت میں تنوع کے حامی ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’لوگ سعودی آنے پر بہت زیادہ خوشی محسوس کرتے ہیں۔‘
رچرڈ اٹیس نے بتایا کہ کانفرنس کے شرکا میں سے 30 فیصد کا تعلق امریکہ سے ہے، 20 فیصد کا یورپ سے جبکہ 20 فیصد ایشیا کی نمائندگی کریں گے۔

ایف آئی آئی میں امریکہ، یورپ اور ایشیا سے شرکا موجود ہوں گے۔ فوٹو: عرب نیوز

ایف آئی آئی کا عالمی ترقی میں سب سے اہم کردار پائیدار سرمایہ کاری پر توجہ دینا ہے۔ قابل تجدید توانائی سے لے کر صحت کی دیکھ بھال اور سستی رہائش تک، ایف آئی آئی کا مقصد ایسی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کرنا ہے جس کے انسانیت پر دیرپا اثرات مرتب ہوں۔
اس فورم نے ای ایس جی (ماحول، سماجی اور گورننس) کے نام سے ایک نئے فریم ورک کی بنیاد رکھی ہے جس کے متعلق رچرڈ اٹیس کا کہنا ہے کہ نیا ماڈل اس لیے بھی ضروری ہے کیونکہ موجودہ ماڈل منصفانہ نہیں تھا اور اس میں ابھرتے ہوئے کو شامل نہیں کیا گیا تھا۔
رچرڈ اٹیس کے خیال میں یہ نیا فریم ورک ایشیا اور افریقہ جیسے خطوں میں کھربوں کی نئی سرمایہ کاری کے مواقع پیش کر سکتا ہے جس سے ماحولیاتی تبدیلی اور سماجی عدم مساوات جیسے چیلنجز سے نمٹنے میں مدد ملے گی۔
ایف آئی آئی کا اثر و رسوخ ریاض تک محدود نہیں ہے۔ یہ انیشی ایٹو عالمی سطح پر پھیل گیا ہے اور میامی، لندن اور ریو جینیرو جیسے اہم شہروں میں بھی اس کے تحت تقریبات کا انعقاد کیا گیا ہے۔
’ہم نے اپنے ارکان کے علاقوں، جزیروں اور ملکوں میں بھی جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اسی لیے ہم ایف آئی آئی کے تحت چھوٹی تقریبات کا انعقاد کر رہے ہیں۔‘
غزہ، لبنان اور دیگر مقامات پر جاری تنازعات کے باوجود، رچرڈ اٹیس کا کہنا ہے کہ ایف آئی آئی کے شرکا سرمایہ کاری اور شراکت داری کے مثبت کردار پر توجہ مبذول کیے ہوئے ہیں جو استحکام لانے میں بھی اہم ثابت ہو سکتا ہے۔
’گزشتہ سال ہماری کانفرنس 7 اکتوبر کے تباہ کن واقعے کے بعد منعقد ہوئی تھی۔ میرا خیال تھا شاید لوگ نہ آئیں لیکن اس کے برعکس ہر ایک آیا اور وہ یہ بات چیت کرنا چاہتے تھے۔ وہ مثبت رہنا چاہتے تھے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ خوشحالی لانے سے ہی امن ممکن ہے۔ ان علاقوں میں سرمایہ کاری کے ذریعے ہی دہشت گردی سے لڑا جا سکتا ہے۔ اور امید کا پیغام بھیج کر ہی آپ یہ بتا سکتے ہیں کہ ہماری دنیا بہت زیادہ مضبوط ہے۔‘
’اور یہ سیاستدانوں کے لیے بھی پیغام ہے کہ نجی شعبہ وہ سب کچھ کرتا رہے گا جو ہمارے ملازمین، شہریوں اور ملکوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے ضروری ہے۔‘
فیوچر انویسٹمنٹ انیشی ایٹو کے چیف ایگزیکٹو رچرڈ اٹیس پرامید ہیں ایف آئی آئی جیسی سالانہ تقریبات منعقد ہوتی رہیں تو دنیا موجودہ چیلنجز پر قابو پا لے گی۔

شیئر: