Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سرینگر کے اتوار بازار میں گرنیڈ حملہ، 9 افراد زخمی

حملے کے بعد مسلح پولیس اہلکاروں اور فوجیوں نے علاقے کو گھیرے میں لے لیا۔ (فوٹو: سکرین گریب)
انڈیا کے زیرِانتطام کشمیر کے وزیراعلٰی نے سرینگر کے ایک مصروف بازار میں ’انتہائی پریشان کن‘ گرنیڈ حملے کی مذمت کی ہے۔ پولیس اور میڈیا کے مطابق اس حملے میں متعدد افراد زخمی ہوئے ہیں۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق وزیراعلٰی عمر عبداللہ نے ایک بیان میں کہا کہ ’سرینگر کے اتوار بازار میں معصوم دکان داروں پر گرنیڈ حملہ انتہائی پریشان کن ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’معصوم شہریوں کو نشانہ بنانے کا کوئی جواز نہیں ہو سکتا۔‘
تاہم کشمیر کے وزیراعلٰی نے یہ نہیں بتایا کہ زخمیوں کی تعداد کتنے کی ہے لیکن ایک پولیس افسر نہ نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ نو افراد زخمی ہوئے ہیں جو تمام کے تمام عام شہری ہیں۔
پریس ٹرسٹ آف انڈیا (پی ٹی آئی) نے اپنی فوٹیج میں درجنوں مسلح پولیس اہلکاروں اور فوجیوں کو علاقے کو گھیرے میں لیتے دکھایا ہے۔
ہندوستان ٹائمز نے شری مہاراج ہری سنگھ ہسپتال کے ڈاکٹر تسنیم شوکت کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ کم از کم آٹھ افراد زخمیوں کو علاج کے لیے لایا گیا ہے۔
ڈاکٹر شوکت کا کہنا تھا کہ ’زخمیوں میں آٹھ مرد اور ایک عورت شامل ہیں جبکہ تمام کی حالت بہتر ہے۔‘
مسلم اکثریت کا حامل کشمیر سنہ 1947 میں برطانوی راج سے آزادی حاصل کرنے والے پاکستان اور انڈیا کے درمیان تقسیم ہیں، اور طویل عرصے سے یہاں شورش برپا ہے۔
انڈیا کے زیرِانتظام کمشیر میں کم از کم پانچ لاکھ فوجی تعینات ہیں اور سنہ 1989 سے جاری شورش میں ہزاروں شہری، فوجی اور عسکریت پسند ہلاک ہو چکے ہیں۔

گرنیڈ حملے سے ایک دن قبل انڈین فوجیوں نے دو علیحدہ واقعات میں تین مشتبہ عسکریت پسندوں کو ہلاک کیا تھا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

اس گرنیڈ حملے سے ایک دن قبل انڈین فوجیوں نے دو علیحدہ واقعات میں تین مشتبہ عسکریت پسندوں کو ہلاک کیا تھا۔ جبکہ اکتوبر میں مسلح افراد نے فوج کی ایک گاڑی پر گھات لگا کر حملہ کر کے تین فوجیوں سمیت پانچ افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔
انڈیا روزانہ کی بنیاد پر پاکستان پر عسکریت پسندوں کو ہتھیار فراہم کرنے اور حملوں میں مدد کے الزامات عائد کرتا ہے تاہم پاکستان ان تمام الزامات سے انکاری ہے۔
عمر عبداللہ نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ ’سکیورٹی اداروں کو حملوں کی اس تیزی کو جلد از جلد ختم کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے تاکہ لوگ بغیر کسی خوف کے اپنی زندگی گزار سکیں۔‘

شیئر: