مولانا ابوالکلام آزاد جو بہت دور تک دیکھنے کے اہل تھے
مولانا ابوالکلام آزاد جو بہت دور تک دیکھنے کے اہل تھے
پیر 11 نومبر 2024 11:12
یوسف تہامی، دہلی
جواہر لعل نہرو نے مولانا ابوالکلام آزاد کو ہندوستانی تہذیب کا نمونہ کہا تھا۔ (فوٹو: دی پرنٹ)
’میں مسلمان ہوں اور مجھے ہندوستانی ہونے پر فخر ہے! میں ہندوستان کے ناقابل تسخیر اتحاد کا ایک حصہ ہوں جو ہندوستانی قومیت ہے۔ میں اس عظیم عمارت کے لیے ناگزیر ہوں اور میرے بغیر یہ شاندار ڈھانچہ نامکمل ہے۔ میں ایک لازمی عنصر ہوں، جو ہندوستان کی تعمیر کے لیے خلق کیا گیا ہے۔ میں اس دعوے سے کبھی دستبردار نہیں ہو سکتا۔‘
یہ تاریخی جملے ہندوستان کی آزادی میں مسلمانوں کے ایک وسیع دھڑے کے سرخیل اور کانگریس رہنما مولانا ابوالکلام آزاد کے ہیں جو انہوں نے اپنے اور ہندوستان کے مسلمانوں کے بارے میں کہے تھے۔
مولانا آزاد آج سے 136 سال قبل 11 نومبر سنہ 1888 کو مکہ میں پیدا ہوئے اور جب وہ محض چند سال کے تھے تو اپنے خاندان کے ساتھ ہندوستان چلے آئے اور کلکتہ میں قیام پذیر ہو گئے۔ ان کا اصل نام سید غلام محی الدین احمد بن خیر الدین الحسینی تھا۔ لیکن انہیں دنیا نے ان کے قلمی نام ابوالکلام آزاد کے نام سے جانا۔
ان کے والد اپنے زمانے کے مشہور عالم دین تھے اور ان کا خانوادہ ہرات سے دہلی پہنچا تھا لیکن 1857 کے غدر میں دہلی کے اُجڑنے کے بعد ان کا کنبہ مکہ چلا گيا جہاں ابوالکلام کی پیدائش ہوئی۔ ان کی والدہ بذات خود بہت تعلیم یافتہ تھیں اور مدینہ کے ایک عالم فاضل کی بیٹی تھیں۔
مولانا آزاد کو ایک بے مثال خطیب، عظیم صحافی، دانشور اور عالم دین ہونے کا شرف بھی حاصل ہے۔ اس کے ساتھ وہ صحافی بھی تھے۔ انہوں نے 1912 میں اردو ہفتہ وار ’الہلال‘ جاری کیا جو انگریز مخالف پر مبنی مواد کے لیے کافی مقبول ہوا لیکن حکومت نے اس پر 1914 میں پابندی عائد کر دی۔ پھر مولانا آزاد نے ’البلاغ‘ کے نام سے دوسرا اخبار شروع کر دیا اور قومی آزادی کے اپنے مشن کو جاری رکھا۔
مولانا آزاد کی تعلیم گھر پر ہی ہوئی تھی۔ ان کی مادری زبان عربی تھی جبکہ انہیں اردو، فارسی، بنگالی اور انگریزی زبانیں بھی بخوبی آتی تھیں۔
ان کی اردو دانی اور ان کی اردو نثر آج یونیورسٹیوں اور درسگاہوں میں نمونے کے طور پر پڑھائی جاتی ہیں۔ چنانچہ اردو کے ایک معروف شاعر حسرت موہانی نے اپنے ایک شعر میں اس کا اظہار کیا ہے۔ انھوں نے لکھا
جب سے دیکھی ابوالکلام کی نثر
نظم حسرت میں بھی مزا نہ رہا
ابولکلام آزاد کی تصنیف ’غبار خاطر‘ گرچہ خطوط کا مجموعہ ہے لیکن اس میں جو انشائیہ پردازی ہے وہ اپنی مثال آپ ہے اور اپنے آپ میں بے نظیر بھی ہے۔
معروف محقق عبدالماجد دریابادی نے لکھا: ’مولانا آزاد اپنے طرز و انشا کے جس طرح موجد ہیں، اسی طرح اس کے خاتم بھی ہیں۔ تقلید کی کوشش بہتوں نے کی، پیروان غالب کی طرح تقریباً سب ہی ناکام رہے۔‘
میرے دادا بتاتے تھے کہ 12 سال کی عمر میں جب ان کے مضامین ملک کے مشہور اخبار کی زینت بننے لگے تو لوگ یہ سمجھتے تھے کہ کوئی بڑا جدید عالم ہوگا جو اس فکری بالیدگی کے مضامین تحریر کر رہا ہے۔
انہوں نے علماء کی انجمن قائم کی اور اسی درمیان ان کی کانگریس سے نزدیکیاں ہوئیں اور وہ کانگریس میں شامل ہو گئے اور تاحیات اس کے ساتھ وابستہ رہے۔
وہ روز اول سے ہی ہندوستان کی تقسیم کے خلاف رہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ مسلم لیگ یا محمد علی جناح سے کبیدہ خاطر ہی رہے۔ تقسیم ہند کے خلاف ان کی دہلی کی جامع مسجد سے کی جانے والی تقریر آج بھی نقل کی جاتی ہے اور آج بہت سے لوگوں کو یہ احساس ہوتا ہے کہ مولانا بہت دور تک دیکھنے کے اہل تھے۔
انھوں نے جامع مسجد میں مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا: ’عزیزانِ گرامی، آپ جانتے ہیں کہ وہ کون سی زنجیر ہے جو مجھے یہاں لے آئی ہے۔ میرے لیے شاہ جہاں کی اس یاد گار مسجد میں یہ اجتماع نیا نہیں۔ میں نے اِس زمانہ میں بھی، کہ اِس پر لیل و نہار کی بہت سی گردِشیں بیت چکی تھیں، تمہیں خطاب کیا تھا۔ جب تمہارے چہروں پر اضمحلال کی بجائے اطمینان تھا اور تمہارے دِلوں میں شک کی بجائے اعتماد۔ آج تمہارے چہروں کا اضطراب اور دِلوں کی ویرانی دیکھتا ہوں تو مجھے بے اختیار پچھلے چند سالوں کی بھولی بسری کہانیاں یاد آ جاتی ہیں۔‘
’تمہیں یاد ہے میں نے تمہیں پکارا اور تم نے میری زبان کاٹ دی۔ میں نے قلم اُٹھایا اور تم نے میرے ہاتھ قلم کر دیے۔ میں نے چلنا چاہا تم نے میرے پاؤں کاٹ دیے، میں نے کروٹ لینا چاہی تو تم نے میری کمر توڑ دی۔ حتیّٰ کہ پچھلے سات سال کی تلخ نوا سیاست جو تمہیں آج داغِ جدائی دے گئی ہے اُس کے عہدِ شباب میں بھی میں نے تمہیں ہر خطرے کی شاہراہ پر جھنجھوڑا لیکن تم نے میری صدا سے نہ صرف اعراض کیا۔ نتیجہ معلوم کہ آج اُنہی خطروں نے تمہیں گھیر لیا ہے جن کا اندیشہ تمہیں صِراطِ مستقیم سے دور لے گیا تھا۔‘
وہ کئی بار کانگریس ورکنگ کمیٹی کے جنرل سیکریٹری اور صدر بنائے گئے اور جب ہندوستان آزاد ہوا تو انڈیا کے پہلے وزیر تعلیم بنائے گئے۔
انڈیا میں آج جو تعلیمی نظام رائج ہے اور جو اعلٰی تعلیمی ادارے ملک کے مستقبل حال و مستقبل کو سنوار رہے ہیں وہ ان کی ہی دور بین نگاہوں کا مرہون منت ہے۔ انڈیا آزادی کے بعد اگرچہ خود کو غیروابستہ ممالک کا رہنما بنانے میں لگا رہا لیکن وہ روس کے قریب رہا اور امریکہ سے اس کی دوری ایک زمانے تک جاری رہی۔
لیکن مولانا آزاد نے تعلیم کے میدان میں روس کے بجائے امریکہ کی طرز پر آئی آئی ٹیز اور سائنسی اداروں کا قیام کیا۔ یہی سائنس اور ٹیکنالوجی کے ادارے ہیں جس نے انڈیا کو آج دنیا میں پہچان دی ہے اور اس سے نکلنے والے طلبہ پوری دنیا میں نظر آتے ہیں۔
مولانا آزاد نے انڈین کونسل فار کلچرل ریلیشنز کی بنیاد ڈالی جس کے ذریعے انڈین تہذیب دنیا کے گوشے گوشے تک پہنچی۔ ان کی تعلیمی خدمات کے اعتراف میں ملک کے طول و عرض میں ان کے نام پر کالجز اور یونیورسٹیاں قائم ہیں۔ ان میں دہلی کا مولانا آزاد میڈیکل کالج، بھوپال کا مولانا آزاد نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی اور حیدرآباد میں قائم مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی وغیرہ اہم ہیں۔ ان کی کثیر جہتی شخصیت کو دیکھتے ہوئے ہی جواہر لعل نہرو نے انہیں ہندوستانی تہذیب کا نمونہ کہا تھا۔