Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جاسوس سیٹلائٹ کی تصاویر جو ماہرین کو عراق میں تاریخی جنگ کے مقام تک لے گئیں

ماہرین نے بتایا کہ ٹیم آئندہ سال اس جگہ پر کھدائی شروع کرنے کا ارادہ رکھتی ہے (فوٹو: اے پی)
1970 کی دہائی میں امریکہ کے جاسوس سیٹلائٹ سے لی گئی تصاویر برطانوی عراقی آثارِ قدیمہ کی ٹیم کو ساتویں صدی کی تاریخی جنگ کے مقام تک لے گئیں جو پورے خطّے میں اسلام کے پھیلاؤ میں فیصلہ کُن ثابت ہوئی تھی۔
خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق القادسیہ کی جنگ میسوپوٹیمیا جس کا موجودہ نام عراق ہے، میں سنہ 630 عیسوی میں عرب مسلمانوں اور ساسانی فارسی خاندان کی فوج کے درمیان لڑی گئی تھی۔
اس جنگ میں عرب فوج غالب آ گئی تھی جس نے فارس جو اب ایران کہلاتا ہے، میں اپنی پیش قدمی جاری رکھی۔
برطانیہ کی ڈرہم یونیورسٹی اور القادسیہ یونیورسٹی کے ماہرین آثارِ قدیمہ کی ایک مشترکہ ٹیم نے درب زبیدہ کی نقشہ سازی کرتے ہوئے دیکھا کہ عراق کے جنوبی صوبہ نجف میں کوفہ سے تقریباً 30 کلومیٹر (20 میل) جنوب میں ایک جگہ تاریخی مواد میں بیان کردہ القادسیہ جنگ کے مقام سے ملتی جلتی تھی۔
ڈرہم یونیورسٹی میں آثار قدیمہ کے ریموٹ سینسنگ کے ماہر ولیم ڈیڈمین نے کہا کہ ’سرد جنگ کے دور کی سیٹلائٹ تصاویر مشرق وسطیٰ میں کام کرنے والے آثار قدیمہ کے ماہرین کی طرف سے عام طور پر استعمال ہونے والے ٹولز ہیں کیونکہ پرانی تصاویر اکثر ایسے نقشے کو ظاہر کرتی ہیں جو تباہ یا تبدیل ہو چکے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ مشرق وسطیٰ نے گزشتہ 50 برسوں میں زرعی اور شہری ترقی کی ہے۔ ’القادسیہ کے مقام پر کچھ امتیازی خصوصیات جیسے ایک مخصوص خندق 1970 کی دہائی کی تصاویر میں زیادہ قدیم اور واضح تھی۔‘
زمین پر ایک سروے نے نتائج کی تصدیق کی اور ٹیم کو اس بات پر قائل کیا کہ انہوں نے اس جگہ کی صحیح شناخت کی ہے۔

یہ دریافت ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب عراق میں آثار قدیمہ کی بحالی کا کام جاری ہے (فوٹو: اے پی)

جامعہ القادسیہ کے آثار قدیمہ کے پروفیسر جعفر جوتری نے کہا کہ اہم خصوصیات ایک گہری خندق، دو قلعے اور ایک قدیم دریا تھے جسے مبینہ طور پر ہاتھیوں پر سوار فارسی دستوں نے بنایا تھا۔ سروے ٹیم کو جنگ کے دور کے مٹی کے برتنوں کے ٹکڑے بھی ملے۔
انہوں نے بتایا کہ ٹیم آئندہ سال اس جگہ پر کھدائی شروع کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
یہ دریافت 2015 میں خطے میں خطرے سے دوچار آثار قدیمہ کے مقامات کو باضابطہ طور پر ریکارڈ میں شامل کرنے کے لیے شروع کیے گئے منصوبے کا حصّہ ہے۔
یہ دریافت ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب عراق میں آثار قدیمہ کی بحالی کا کام جاری ہے۔
عراق ایسا ملک ہے جسے ’تہذیب کا گہوارہ‘ کہا جاتا ہے لیکن یہاں آثار قدیمہ کی تلاش کا عمل کئی دہائیوں کے تنازعات کی وجہ سے روک دیا گیا تھا۔

شیئر: