عراق میں یونیورسٹی آف کوفہ کی پروفیسر ڈاکٹر ماہر آثار قدیمہ موناعبدالکریم القیسی کے مطابق اس شاہراہ پر سفر کرنے والوں کی تاریخ کا حوالہ تیسری صدی قبل مسیح سے ملتا ہے۔
ایک انٹرویو میں مونا القیسی نے وضاحت کی کہ جزیرہ نما عرب آنے والے زائرین اس معروف راستے سے جنوبی عراق کے قدیم شہر اوروک کے مضافات میں پہنچتے تھے بعدازاں اس گزرگاہ کو الحرا روٹ کا نام دیا گیا جو کہ دریائے فرات تک پھیلا ہوا تھا۔
یہ راستہ شاہراہ ریشم سے منسلک رہا جو معروف علاقوں ناصریہ، دمتہ الجندل، سلیوسیا، حضرا، وادی تھرتھر، سنجار اور اناطولیہ کو جوڑتا ہے۔
اسلامی دور میں درب زبیدہ کے نام سے اس گزرگاہ کا آغاز عراق کے شہر کوفہ سے ہوا تھا جو مکہ مکرمہ تک پہنچا۔
ماہر آثار قدیمہ نے بتایا کہ عراق کے علاقوں سماوہ اور دیوانیہ کے قریب کھدائی سے اہم تاریخی نشانات ملے ہیں جس میں قدیم دور میں اس سرزمین میں داخل ہونے والوں کے کچھ شواہد بھی شامل ہیں۔
مونا عبدالکریم نے مزید بتایا ہے کہ ان علاقوں میں مسلسل کھدائی مزید زبردست آثار قدیمہ اور تاریخی انکشافات کا باعث بن سکتی ہے۔
قدیم تاریخ کے پروفیسر اور آثار قدیمہ کے شوقین ٹور گائیڈ خلف الغفیلی نے بتایا ہے کہ قدیم عرب قبائلیوں نے سب سے پہلے یہ تاریخی تجارتی گزرگاہ اختیار کی جسے اب درب زبیدہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
قبائلیوں نے جزیرہ نما عرب ہجرت کی اور چوتھی صدی قبل مسیح میں شمال کی طرف روانہ ہوئے اور اس علاقے میں پہلے سے رہنے والوں کے ساتھ آباد ہو گئے۔
سعودی عرب کی مزید خبروں کے لیے واٹس ایپ گروپ جوائن کریں