ہنی ٹریپ میں ملوث پنجاب کا گورا عُمرانی گینگ کیسے کام کرتا ہے؟
ہنی ٹریپ میں ملوث پنجاب کا گورا عُمرانی گینگ کیسے کام کرتا ہے؟
جمعہ 22 نومبر 2024 5:38
رائے شاہنواز - اردو نیوز، لاہور
پولیس کے مطابق کچے میں 12 سے زائد گینگ متحرک ہیں۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
پنجاب کے ضلع راجن پور میں 12 نومبر کی شام ڈاکٹر برکت کے فون پر گھنٹی بجی اور جس نمبر سے کال آئی وہ غیر مانوس تھا۔
کال اٹھانے کے بعد دوسری طرف ایک شخص نے اپنا تعارف کروانے کے بعد کہا کہ ’مجھے اپنے فارم کے مویشیوں کو ویکسین لگانے کے لیے ڈاکٹر کی خدمات کی ضرورت ہے۔‘
فون کال کرنے والا جس علاقے کا ذکر کر رہا تھا عام طور پر ڈاکٹر برکت وہاں شام کے بعد نہیں جاتے تھے، لیکن چونکہ وہ پیشکش زیادہ اچھی تھی لہٰذا انہوں نے ہامی بھر لی۔
جیسے ہی ڈاکٹر برکت بتائی گئی جگہ پر پہنچے اور اس نمبر پر کال کی تو آن کی آن میں انہیں 10 سے 12 مسلح افراد نے گھیر لیا۔
یہ واقعہ راجن پور کے تھانہ سونمیانی کی حدود میں پیش آیا۔ تھانہ سونمیانی کے ایس ایچ او شاہد خواجہ نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے اس واقعے کی مزید تفصیل بتائی۔
ان کے مطابق ’تین دن تک ویٹرنری ڈاکٹر کے گھر والے انہیں خود ہی ڈھونڈتے رہے اور اس کے بعد پولیس میں رپورٹ درج کروانے آئے۔‘
ایس ایچ او نے مزید بتایا کہ ’اغوا کاروں نے خود ہی رابطہ کر کے گھر والوں سے 35 لاکھ روپے تاوان کا مطالبہ کیا تھا۔‘
اغوا کاروں نے کال کرنے کے لیے ڈاکٹر برکت کا ہی فون استعمال کیا۔ ایس ایچ او شاہد خواجہ بتاتے ہیں کہ ’ہم نے پہلا کام یہ کیا کہ ڈاکٹر کے نمبر کی سی ڈی آر نکلوائی اور اُن کے اغوا کے وقت آنے والی کال کا نمبر ٹریس کیا۔‘
’اس نمبر تک پہنچتے ہی ہمیں سمجھ آ گئی کہ یہ کام گورا عُمرانی گینگ نے کیا ہے اور ہمارے لیے اتنی معلومات ہی کافی تھیں۔‘
اس ساری چھان بین میں ایک ہفتے کا وقت گزر چکا تھا اور بالآخر راجن پور پولیس نے اپنے طریقے سے ڈاکٹر کو باحفاظت بازیاب کرانے کا کام شروع کر دیا۔
ڈاکٹر برکت بتاتے ہیں کہ ’جب میرے اوپر بندوقیں تانی گئیں تو مجھے سمجھ آ گئی تھی کہ میں پھنس چکا ہوں۔ مجھے یہ وہاں سے مزید آگے کی طرف لے گئے جہاں بالکل ہی کچے کا علاقہ ہے اور کوئی سڑک نہیں ہے۔‘
’میں حیران تھا کہ ڈاکوؤں کو میرے بارے سب پتا تھا۔ میری مالی حیثیت سے لے کر ہر چیز اُن کے علم میں تھی، لیکن مجھے یہ اندازہ نہیں تھا یہ کون لوگ ہیں بس انہوں نے مجھے باندھ کر رکھا ہوا تھا۔‘
دوسری طرف پولیس یہ سراغ لگانے میں کامیاب ہو چکی تھی کہ یہ کس گینگ کا کام ہے۔ ایس ایچ او شاہد خواجہ کہتے ہیں کہ ’ہمارے پاس ایک ہی طریقہ تھا کہ گورا عُمرانی گینگ کے ارکان کے رشتہ داروں کو پکڑا جائے۔‘
’یہ کال بھی گورا عُمرانی کے بھائی کے نمبر سے کی گئی تھی۔ ہم نے جب فورس لے کر اس علاقے میں مسلسل چھاپے مارے تو دوسرے ہی دن ڈاکٹر کو ایک ویرانے میں چھوڑ کر گینگ کے افراد روپوش ہو گئے۔‘ گورا عُمرانی گینگ ہے کیا؟
پولیس کے مطابق راجن پور سے تعلق رکھنے والے ایک بلوچ قبیلے عُمرانی میں 15 سال قبل ایک خوفناک لڑائی ہوئی تھی جس میں کئی افراد قتل ہوئے۔
’اس کے بعد قبیلے کے لوگ مختلف گروپوں میں بٹ گئے۔ سب سے بڑا گورا نامی گروپ عُمرانی قبیلے کے شخص نے تشکیل دیا۔‘
شاہد خواجہ بتاتے ہیں کہ ’اس گروپ میں 15 کے قریب افراد ہیں جن کے خلاف قتل، پولیس مقابلوں اور ڈکیتیوں کے کئی مقدمات درج ہیں۔‘
’گورا عُمرانی کی عمر 55 سال ہے۔ یہ اُدھیڑ عمر شخص بہت ظالم ہے اور اس علاقے میں ہنی ٹریپ کی شروعات کرنے والا ہے۔ ان کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہوتی ہے کہ ہنی ٹریپ کرنے کے بعد اس شخص کی شناخت ظاہر نہ ہو۔‘
اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ’یہ گینگ سندھ کے بارڈر کی طرف سے کارروائیاں کرتا ہے اور ان کے ہرکارے دوردراز علاقوں میں مختلف کاروباری افراد کی ریکی کرتے ہیں۔ کبھی عورت کا لالچ کبھی کام کا لالچ دے کر بلاتے ہیں۔‘
’یہ کسی بھی شخص کے بارے میں تحقیق کیے بغیر ٹریپ نہیں بچھاتے۔ یہ اس کام کی طرف اس لیے آئے کہ یہ ڈکیتی سے زیادہ آسان ہے اور اس میں صرف ذہانت کام کرتی ہے۔‘
ایس ایچ او شاہد خواجہ کہتے ہیں کہ ’ان کی سب سے بڑی کوشش یہ ہوتی ہے کہ متاثرہ شخص پولیس تک نہ پہنچے یا اس کی شناخت ظاہر نہ ہو۔ اس لیے دھمکاتے بھی ہیں کیونکہ پولیس کو اُن کے سارے رشتہ داروں کا علم ہوتا ہے۔‘
’اس گینگ نے راجن پور کے علاقے میں چند ماہ کے دوران چار سے پانچ ہنی ٹریپ بچھائے تھے لیکن سب ناکام ہوئے۔ صرف وہی کامیاب ہوئے جو پولیس کے علم میں نہیں لائے گئے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’یہ کارروائیاں ایسے علاقوں میں کی گئیں جو سرحدی علاقے کہلاتے ہیں۔ لوگوں کے بارے میں یہ جتنی باتیں جان کر انہیں اغوا کرتے ہیں تو وہ پھر پولیس کو بتانے سے بھی گریز کرتے ہیں، لہٰذا انہیں ڈر رہتا ہے کہ کہیں بعد میں اُنہیں نقصان نہ پہنچایا جائے۔‘
کچے کے علاقے میں پولیس کے مطابق 12 سے زائد گینگ متحرک ہیں جو اب سارے ہنی ٹریپ کا طریقہ واردات اختیار کر چکے ہیں۔