Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اسرائیل میں بسے فلسطینی شہریوں کو اشتعال انگیزی کے مقدمات کا سامنا ہے

اظہار یکجہتی پر اسرائیل میں بسے فلسطینی شہریوں کی زندگی اجیرن ہو گئی۔ فوٹو اے پی
اسرائیل میں بسنے والے فلسطینیوں کے خلاف سالہا سال سے کریک ڈاؤن جاری ہے جس میں بہت سے لوگوں کو جیل میں ڈالے جانے کے خوف سے خاموش رہنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔
امریکی نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق معاشرے میں مزید پسماندہ ہونے اور قید کی صعوبتیں برادشت کرنے کے باوجود کچھ فلسطینی اب بھی اختلاف رائے کی راہیں تلاش کر رہے ہیں۔
اکتوبر2023 میں غزہ جنگ مخالف مظاہرے میں فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی پر اسرائیل میں رہنے والے فلسطینی شہری احمد خلیفہ کی زندگی اجیرن ہو گئی جب انہیں دہشت گردی پر اکسانے کا الزام میں جیل میں ڈال دیا گیا۔
وسطی اسرائیل کے وکیل اور سٹی کونسلر نے بتایا ہے ’ احمد خلیفہ نے تین مہینے جیل میں گزارے اور اس کے بعد چھ ماہ ایک اپارٹمنٹ میں نظر بند رہے۔ 
 یہ واضح نہیں ہے کہ احمد خلیفہ کو  ’جرم یا بے گناہی‘ پر عدالت سے حتمی فیصلہ کب ملے گا۔ اس وقت تک انہیں شام سے صبح تک گھر سے نکلنے کی بھی ممانعت ہے۔
احمد خلیفہ اسرائیل کے 400 سے زائد فلسطینی شہریوں میں سے ایک ہیں جن سے غزہ میں جنگ کے آغاز کے بعد سے اقلیتوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے قانونی گروپ ’عدلہ‘ کے مطابق ’دہشت گردی یا تشدد پر اکسانے‘  کے الزام میں اسرائیلی پولیس نے تفتیش کی ہے۔ 
قانونی گروپ ’عدلہ‘  کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے ’جن فلسطینیوں سے تفتیش کی گئی ان میں سے نصف سے زائد کو مجرمانہ انداز میں حراست میں لیا گیا۔

فلسطینی شہری 3 ماہ جیل میں قید اور چھ ماہ گھر میں نظر بند رہے۔ فوٹو اے پی

احمد خلیفہ نے اپنے آبائی شہر ام الفحم (اسرائیل کے دوسرے بڑے فلسطینی شہر‘ کے ایک کیفے میں انٹرویو دیتے ہوئے کہا ’اسرائیل نے واضح کر دیا ہے کہ وہ ہمیں شہریوں سے زیادہ دشمن کے طور پر دیکھتے ہیں۔‘
اسرائیل میں تقریباً 20 لاکھ فلسطینی شہری آباد ہیں جن کے خاندان 1948 میں اسرائیل بننے کی سرحدوں کے اندر موجود رہے۔ان میں یہودیوں کے علاوہ مسلمان اور عیسائی بھی شامل ہیں اور وہ غزہ اور مغربی کنارے میں بسنے والے اپنے خاندانوں کے ساتھ ثقافتی تعلقات برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ جن پر اسرائیل نے 1967 میں قبضہ کیا تھا۔
دوسری جانب اسرائیل کا کہنا ہے کہ یہاں فلسطینی شہریوں کو ووٹ ڈالنے کا حق سمیت  دیگر مساوی حقوق حاصل ہیں اور بہت سے پیشوں سے منسلک اچھی زندگی گزار رہے ہیں تاہم ہاؤسنگ اور جاب مارکیٹ جیسے شعبوں میں فلسطینیوں کے ساتھ بڑے پیمانے پر امتیازی سلوک  روا رکھاجاتا ہے۔

’اسرائیل ہمیں شہریوں سے زیادہ دشمن کے طور پر دیکھتا ہے۔‘ فوٹو اے پی

عدلہ گروپ کے ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ اسرائیلی حکام نے غزہ میں جنگ کے دوران فلسطینی شہریوں کے خلاف اشتعال انگیزی کے مقدمات کھولے ہیں جو گذشتہ  پانچ برس سے زیادہ ہیں۔اسرائیلی حکام نے یہ نہیں بتایا کہ کتنے مقدمات سزاؤں اور قید پر ختم ہوئے۔
دوسری جانب وزارت انصاف کا کہنا ہے اس کے پاس ان سزاؤں کے اعداد و شمار نہیں تاہم دہشت گردی پر اکسانے یا دہشت گرد گروپ سے شناخت کا الزام کسی مشتبہ شخص کو اس وقت تک حراست میں رکھ سکتا ہے جب تک اسے 2016 کے قانون کی شرائط کے تحت سزا نہیں دی جاتی۔
کارکنوں اور انسانی حقوق پر نظر رکھنے والے اداروں کا کہنا ہے کہ مجرموں کے طور پر چارج کیے جانے کے علاوہ اسرائیل کے فلسطینی شہری جو اسرائیلی آبادی کا تقریباً 20 فیصد ہیں اپنی ملازمتیں کھو چکے ہیں، سکولوں سے نکال دیے گئے ہیں اور انہیں آن لائن پوسٹ کرنے یا مظاہرے کرنے پر پولیس تفتیش کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

سینکڑوں فلسطینیوں نےغزہ جنگ مخالف مظاہرے میں سیاسی نعرے لگائے۔ فوٹو اے پی

یہاں موجود فلسطینی خاتون عومیہ جبرین ’جن کے بیٹے کو جنگ مخالف مظاہرے کے بعد آٹھ ماہ کے لیے جیل بھیج دیا گیا تھا، انہوں نے بتایا ’یہاں رہنے والے فلسطینی خوفزدہ ہیں،جو کوئی بھی جنگ کے بارے میں بات کرنے کی کوشش کرے گا اسے قید کر دیا جائے گا اور اس کی نوکری اور بچوں کی تعلیم پر برا اثر پڑے گا۔
عومیہ جبرین ان سینکڑوں فلسطینیوں میں شامل تھیں جنہوں نے اس ماہ کے شروع میں ام الفحم کی سڑکوں پر ہونے والے جنگ مخالف مظاہرے میں بینرز اٹھاتے ہوئے سیاسی نعرے لگائے، یہ مظاہرہ  7 اکتوبر کو حماس کے حملے کے بعد اسرائیل میں یہ سب سے بڑا جنگ مخالف مظاہرہ تھا۔

شیئر: