پاکستان میں جنسی حملوں کے مرتکب افراد کی ٹیگنگ کا نظام ریپ کو روک سکتا ہے؟
پاکستان میں جنسی حملوں کے مرتکب افراد کی ٹیگنگ کا نظام ریپ کو روک سکتا ہے؟
منگل 3 دسمبر 2024 5:44
خرم شہزاد، اردو نیوز۔ اسلام آباد
ٹیگنگ سسٹم 2021 کے ایک قانون کے تحت بنایا گیا ہے (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان نے ملک میں بڑھتے ہوئے جنسی جرائم بالخصوص بچوں کے ساتھ جنسی زیادتیوں کی روک تھام کے لیے مجرموں کی ٹیگنگ کا نظام شروع کر دیا ہے جس کے ذریعے ملک بھر میں سزا یافتہ مجرموں کی نگرانی کی جائے گی۔
وفاقی رجسٹریشن اتھارٹی نادرا نے اس نظام کے لیے ایک خصوصی سافٹ ویئر بنایا ہے، جس کو ملک کے تمام اضلاع میں پراسیکیوشن دفاتر سے منسلک کیا جا رہا ہے۔ اس سافٹ ویئر کے ذریعے ملک کے کسی بھی کونے میں کسی جنسی جرم کی سزا پانے والے شخص کی ساری معلومات متعلقہ اداروں کے پاس پہنچ جائیں گی۔
پاکستان کی وفاقی حکومت کے اس نظام سے منسلک حکام نے اردو نیوز کو بتایا ہے کہ اس کا مرکز اسلام آباد میں بنایا گیا ہے، جبکہ تمام صوبے اپنے پراسیکیوشن ڈیپارٹمنٹس کے ذریعے اس کا حصہ ہیں۔
ٹیگنگ نظام وفاقی وزارت داخلہ، وزارت قانون و انصاف اور ضلعی پراسیکیوٹرز کو خصوصی سافٹ ویئر سے جوڑے گا، جو نیشنل پولیس بیورو کے زیرنگرانی کام کرے گا اور تمام متعلقہ افراد کا ڈیٹا مرتب کرے گا۔
حکام کے مطابق اب جب بھی کسی جنسی جرم کے مرتکب مجرم کو عدالت سزا سنائے گی تو اس کے ساتھ ہی اس کے تمام کوائف اس ٹیگنگ سافٹ ویئر میں آ جائیں گے اور اس کے جیل سے باہر آنے کے بعد کی نقل و حرکت سرکاری اداروں کی نظر میں رہے گی۔
اس سافٹ ویئر کے ذریعے بننے والے ڈیٹا بیس میں مجرموں کی ذاتی اور شناختی معلومات کے علاوہ ان کے رہائشی اور کاروباری پتے بھی موجود ہوں گے۔
قانون نافذ کرنے والے ادارے ضرورت پڑنے پر ان افراد کو بلا کر ان سے پوچھ گچھ کر سکیں گے اور ان پر مسلسل نظر رکھ کر مستقبل میں جنسی جرائم کی روک تھام کے لیے کام کریں گے۔
اس نظام کی بنیاد بین الااقوامی طور پر مسلمہ تحقیق پر رکھی گئی ہے جس کے مطابق ایک مرتبہ جنسی جرم کرنے والا شخص بار بار اس کو دہراتا ہے اور سزا یا نفسیاتی تربیت کے باوجود اس بات کے امکانات کم ہوتے ہیں کہ وہ دوبارہ یہ جرم نہیں کرے گا۔
اس لیے ان جرائم کو روکنے کا موثر طریقہ یہی ہے کہ ایک بار اس کے مرتکب ہونے والے شخص کی مکمل نگرانی کی جائے اور اس کی کسی مشکوک سرگرمی پر اس کی گرفت کی جائے۔
پاکستان نے اس ٹیگنگ نظام کی مثال برطانیہ کے جنسی مجرموں کی نگرانی کے نظام سے لی ہے اور حال ہی میں ایک خصوصی سرکاری وفد اس برطانوی نظام کا براہ راست مشاہدہ کر کے واپس لوٹا ہے۔ اس وفد میں شامل ماہرین پاکستان میں مجرموں کی نگرانی کے لیے برطانیہ سے حاصل کی گئی رہنمائی کو بروئے کار لانے کے لیے لائحہ عمل طے کر رہے ہیں۔
حکام کے مطابق ملک کے چاروں بڑے صوبوں نے اس کے لیے ڈیٹا فراہم کر دیا ہے اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر اور گلگت بلتستان کی معلومات کو بھی ٹیگنگ سسٹم میں جلد شامل کر دیا جائے گا۔ اب تک ہونے والی پیشرفت کے مطابق ایک ہزار کے قریب مجرمان براہ راست نگرانی میں آ رہے ہیں۔
یہ ٹیگنگ سسٹم 2021 کے ایک قانون کے تحت بنایا گیا ہے، جس کے لیے قواعد و ضوابط وزارت قانون و انصاف نے گذشتہ سال تشکیل دیے تھے۔
ٹیگنگ آلات کے بغیر یہ نظام ناکام ہو گا‘
تاہم ماہرین کا خیال ہے کہ پاکستان کا ٹیگنگ سسٹم اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتا جب تک کہ مجرموں کی نگرانی کے لیے ان کے ساتھ ایسا آلہ نصب نہ کیا جائے جو 24 گھنٹے ان کا محل وقوع بتائے۔
کراچی یونیورسٹی کے شعبہ کرمنالوجی کی سربراہ نائمہ سعید کے مطابق کسی بھی فرد یا طبقے کی نگرانی رضاکارانہ بنیادوں پر نہیں ہو سکتی، جبکہ پاکستان کے اس نظام کی بنیاد مجرموں کی رضاکارانہ اطلاعات یا سرکاری اہلکاروں کی جانب سے کی گئی شخصی نگرانی پر ہے جس کے کامیابی کے امکانات کم ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’پاکستان میں تو ویسے ہی دستاویزات نامکمل ہوتی ہیں، کئی علاقوں میں آج تک شناختی کارڈ استعمال نہیں ہوتا۔ حکومت کو اگر ان مجرموں کی نگرانی کرنی ہے تو ان کے ساتھ یا تو کوئی آلہ لگانا پڑے گا یا پھر کڑے پہنانے پڑیں گے جیسے دوسرے ملکوں میں ہوتے ہیں تاکہ ان کی موجودگی کے بارے میں ہر وقت اطلاع ملتی رہے۔‘
تاہم حکام کا کہنا ہے کہ ٹیگنگ نظام ابھی ابتدائی مراحل میں ہے اور آگے چل کر اس میں آلے منسلک کرنے کے بارے میں بھی غور کیا جائے گا۔ پہلے مرحلے میں توجہ مکمل ڈیٹا حاصل کرنے پر ہے، کیونکہ اس سے مستقبل کے واقعات پر فوری ایکشن اور تحقیقات میں مدد مل سکتی ہے۔
’جنسی مجرموں کی پروفائلنگ‘
گذشتہ کئی سالوں سے بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے چائلڈ رائٹس ایکٹوسٹ ممتاز حسین کہتے ہیں کہ اگرچہ آلوں کی تنصیب ٹیگنگ کے اس نظام کی کامیابی کو سو گنا بڑھا دے گی لیکن اب تک کیے گئے اقدامات قابل تعریف ہیں کیونکہ اس سے مجرموں کی پروفائلنگ میں بہت زیادہ مدد ملے گی۔
تاہم انہوں نے کہا کہ اس کو مزید موثر بنانے کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے علاوہ تمام متعلقہ سرکاری اور غیر سرکاری سماجی اداروں کو اس کے ساتھ منسلک کیا جائے تا کہ معلومات کی فراہمی و رسائی زیادہ بہتر ہو۔
واضح رہے کہ حکومت نے اس منصوبے سے ملنے والے ڈیٹا کو خفیہ رکھنے کا فیصلہ کیا ہے، اور قانونی طور پر یہ ضمانت دی گئی ہے کہ کسی بھی فرد یا اس کے جرم کے متعلق اس ڈیٹا بیس میں آنے والی معلومات کو عوامی سطح پر جاری نہیں کیا جائے گا۔