سپریم کورٹ کی فوجی عدالتوں کو فیصلے سنانے کی مشروط اجازت
سپریم کورٹ کی فوجی عدالتوں کو فیصلے سنانے کی مشروط اجازت
جمعہ 13 دسمبر 2024 10:16
بشیر چوہدری، اردو نیوز۔ اسلام آباد
جسٹس امین الدّین خان نے کہا کہ ’سماعت صرف فوجی عدالتوں کے مقدمے تک محدود رہے گی‘ (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کی سپریم کورٹ نے ملٹری کورٹس کو فوج کی حراست میں موجود 85 ملزمان کے کیسز کے فیصلے کرنے کی مشروط اجازت دے دی ہے۔
جمعے کو سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے کیس کی سماعت کی۔ عدالت نے فوجی عدالتوں کے علاوہ دیگر تمام مقدمات کی سماعت ملتوی کرتے ہوئے کہا کہ ’آج صرف اسی معاملے پر بحث ہوگی۔‘
جسٹس امین الدّین خان نے واضح کیا کہ ’سماعت صرف فوجی عدالتوں کے مقدمے تک محدود رہے گی۔‘
سماعت کے آغاز پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ ’پہلے یہ وضاحت کریں کہ آیا آرمی ایکٹ کی کالعدم دفعات آئین کے مطابق ہیں یا نہیں؟ کیا آرمی ایکٹ میں ترمیم کے ذریعے ہر شخص کو اس کے دائرے میں شامل کیا جا سکتا ہے؟‘
جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ ’عدالت کے فیصلے میں دفعات کو کالعدم قرار دینے کی وجوہات کیا ہیں؟‘
جسٹس جمال خان مندوخیل نے نشاندہی کی کہ ’آرمی ایکٹ 1973 کے آئین سے پہلے تشکیل دیا گیا تھا، اس پہلو پر بھی غور کریں۔‘
وزارتِ دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے اپنے دلائل میں کہا کہ ’سپریم کورٹ کے فیصلے میں خرابیاں ہیں‘ جس پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ عدالتی فیصلے کو اتنا کمزور نہ سمجھیں کہ اسے خراب کہیں۔‘
خواجہ حارث نے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ ان کے الفاظ ’قانونی نوعیت‘ کے نہیں تھے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے یاددہانی کرائی کہ ’گذشتہ روز بھی کہا گیا تھا کہ 9 مئی کے واقعات کی تفصیلات فراہم کریں، فی الحال صرف کور کمانڈر ہاؤس کا معاملہ سامنے ہے۔ اگر کیس صرف کور کمانڈر ہاؤس تک محدود ہے تو یہ واضح کریں۔‘
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ تمام تفصیلات آج صبح ہی موصول ہوئیں اور انہیں باضابطہ طور پر متفرق درخواست کی صورت میں جمع کرایا جائے گا۔
جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ ’جن دفعات کو کالعدم قرار دیا گیا ہے ان کے تحت ہونے والے ٹرائلز کا کیا ہوگا؟ کیا 9 مئی سے پہلے بھی کسی کو ان دفعات کے تحت سزا دی گئی؟‘
خواجہ حارث نے جواب دیا کہ عام طور پر کالعدم ہونے سے پہلے ان دفعات پر کیے گئے فیصلوں کو تحفظ دیا جاتا ہے، جس پر جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ ’یہ ملزمان کے ساتھ تعصّب ہوگا۔‘
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ ’فوج میں شمولیت رضاکارانہ ہوتی ہے اور جو آرمی جوائن کرتا ہے، اسے معلوم ہوتا ہے کہ آرمی ایکٹ کا اطلاق ہوگا۔ آرمی ایکٹ بنیادی حقوق کو محدود کرتا ہے اور فوج کے ڈسپلن اور قواعد کے لیے بنایا گیا ہے۔‘
وزارتِ دفاع کے وکیل نے مؤقف اپنایا کہ ’فوج میں کوئی بھی کام جُرم کی نیّت سے نہیں کیا جاتا اور بنیادی حقوق جرم کرنے پر ہی محدود کیے جاتے ہیں۔‘
جسٹس جمال خان مندوخیل نے سوال کیا کہ ’کیا عدالت اپیل میں صرف درخواست گزار کی استدعا تک محدود رہے گی، یا فیصلے کے دیگر پہلوؤں کا بھی جائزہ لے سکتی ہے؟‘
جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ ’فریقین اپنی معروضات تک محدود رہ سکتے ہیں، لیکن عدالت ایسا کرنے کی پابند نہیں۔‘
سماعت کے بعد عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ’فوجی عدالتوں کے فیصلے سپریم کورٹ میں زیرالتوا مقدمے کے فیصلے سے مشروط ہوں گے۔‘
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ’جن ملزمان کو سزاؤں میں رعایت مل سکتی ہے وہ دے کر رہا کیا جائے اور جن ملزمان کو رہا نہیں کیا جا سکتا انہیں سزا سنانے پر جیلوں میں منتقل کیا جائے۔‘