Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’آوارہ‘ سے بالی وڈ کے عظیم ترین شومین تک، راج کپور کے 100 سال

چار دہائیوں پر محیط کیریئر میں راج کپور نے یہ ثابت کیا کہ وہ بالی وڈ کے ’شومین‘ تھے (فائل فوٹو: اے ایف پی)
’میں جب مرجاؤں تو میری ارتھی میرے سٹوڈیو لائی جائے۔ ممکن ہے کہ میں اس کی روشنی میں ایکشن، ایکشن کی آوازوں سے جاگ اُٹھوں۔‘
یہ الفاظ اُس ’آوارہ‘ اور ’جوکر‘ کے ہیں جسے دنیا بالی وڈ کے عظیم ترین ’شومین‘ کے طور پر جانتی ہے۔ یہ راج کپور کی کتھا ہے جنہوں نے اداکاری سے فلم سازی تک ہر میدان میں بالی وڈ پر راج کیا۔
ہندی سنیما کا یہ عظیم فن کار آج سے پورے 100 برس قبل 14 دسمبر 1924 کو غیرمنقسم ہندوستان کے شہر پشاور کے قصہ خوانی بازار کی کپور حویلی میں پیدا ہوا۔
یہ سال راج کپور کا سال ہے جنہیں خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے انڈیا میں سرکاری سطح پر تقریبات کا انعقاد کیا جا رہا ہے تو سرحد کے اِس پار پاکستان میں اُن کے چاہنے والے اپنے اس محبوب فنکار کا جنم دن جوش و خروش سے منا رہے ہیں۔
پشاور میں اداکار کی آبائی حویلی کو تاریخی ورثہ قرار دیا جا چکا ہے جسے محفوظ بنانے کے لیے عالمی بینک فنڈز فراہم کر رہا ہے۔
کچھ لوگ اس بات پر حیران ہوتے ہیں اور کچھ سیخ پا جب کبھی یہ ذکر ہو کہ راج کپور کا تعلق پنجاب کے ضلع لائل پور (فیصل آباد) کے قصبے سمندری سے تھا۔
یہ درست ہے کہ اُن کا جنم پشاور میں ہوا اور اوائل عمری کے ماہ و سال بھی اسی شہر میں گزرے اور تو اور وہ ہندکو زبان پر بھی دسترس رکھتے تھے مگر پنجاب اور سمندری کو الگ کر کے اُن کی زیست کا بیاں ناممکن ہے۔
پنجابی ہندو کھتری خاندان سے تعلق رکھنے والے اس عظیم اداکار کے والد لیجنڈ اداکار پرتھوی راج کپور کا جنم سمندری میں ہی ہوا تھا۔
دادا دیوان بشیشورناتھ کپور انڈین امپیریل سروس میں پولیس افسر تھے۔ پڑدادا دیوان کیشورمال کپور اور اُن کے والد دیوان مرلی رام کپور سمندری میں تحصیل دار کے طور پر تعینات رہے تھے۔
شرششتی ناتھ کپور جو رنبیر راج کپور یا مختصراً راج کپور کے نام سے معروف ہوئے جب 17 برس کے تھے تو اپنے والد سے تعلیمی سلسلہ چھوڑنے اور فلموں میں آنے کی اجازت مانگی۔
پرتھوی جو خود خاندانی روایات سے بغاوت کرتے ہوئے اداکار کے طور پر پہچان بنا چکے تھے، نے اس شرط پر اپنے بڑے بیٹے کو فلموں میں کام کرنے کی اجازت دے دی کہ وہ اُن کے اسسٹنٹ کے طور پر 10 روپے ماہانہ پر کام کریں گے۔
اس سے قبل راج کپور صرف 10 برس کی عمر میں فلم ’انقلاب‘ میں چائلڈ آرٹسٹ کے طور پر کام کر چکے تھے جس کے بعد کچھ فلموں میں مختصر کرداروں میں نظر آئے مگر اُن کا زیادہ کیریئر پسِ کیمرہ ہی رہا۔

راج کپور 14 دسمبر 1924 کو پشاور کے قصہ خوانی بازار کی کپور حویلی میں پیدا ہوئے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

یہ اُن دنوں کا ذکر ہے جب وہ کلیپر بوائے کے طور پر کام کر رہے تھے۔ کلیپر بوائے کا کام دراصل ہر منظر سے قبل کلیپر بورڈ یا آسان لفظوں میں سلیٹ کو آپریٹ کرنا ہوتا ہے، یہ اصطلاح پہلی بار 1930 کی دہائی میں استعمال کی گئی تھی۔
نوجوان راج کپور کیدار شرما کی پروڈکشن ٹیم میں کلیپر بوائے کے طور پر کام کر رہے تھے۔ وہ فلم کی شوٹنگ کے دوران بار بار اپنے بالوں کو سنوارتے جس سے کام متاثر ہو رہا تھا۔
کیدار شرما نے یہ دیکھا تو وہ آپے سے باہر ہو گئے اور نوجوان راج کو تھپڑ دے مارا۔ اس تھپڑ کا ازالہ کیدار شرما نے کچھ یوں کیا کہ انہوں نے راج کپور کو اپنی آنے والی فلم ’نیل کمل‘ میں مرکزی کردار کے لیے کاسٹ کر لیا۔
کیدار شرما نارروال کے تھے۔ وہ فن شناس تھے جیسا کہ انہوں نے مدھوبالا، گیتا بالی، مالا سنہا، بھرت بھوشن اور تنوجا جیسے اداکاروں کو بڑے پردے پر متعارف کروایا جن میں راج کپور کا نام بھی شامل ہے۔
فلم ’نیل کمل‘ میں راج کپور کے ساتھ بیگم پارا اور مدھو بالا نظر آئیں۔ بیگم پارا جہلم کے ایک اعلٰی تعلیم یافتہ خاندان سے تعلق رکھتی تھیں اور اُن کے والد میاں احسان الحق شاہی ریاست بیکانیر کے چیف جسٹس رہے تھے۔
اس فلم نے اگرچہ اوسط درجے کا کاروبار کیا مگر نوجوان راج کپور کو اداکاری میں اپنا مستقبل روشن نظر آنے لگا تھا جس کے بعد انہوں نے ’جیل یاترا‘، ’چتور وجے‘ اور ’دل کی یاترا‘ میں کام کیا مگر اداکار کو سال 1948 میں ریلیز ہونے والی فلم ’آگ‘ سے ایک نئی پہچان ملی۔
انہوں نے اس فلم میں اداکاری ہی نہیں کی بلکہ وہ اس فلم کے ہدایت کار اور پروڈیوسر بھی تھے۔ راج کپور کی عمر اُس وقت محض 24 برس تھی۔

راج کپور اور دلیپ کمار کی انڈین وزیراعظم جواہر لعل نہرو کے ساتھ ایک یادگار تصویر (فائل فوٹو: وِکی پیڈیا)

انڈین اخبار ’دی انڈین ایکسپریس‘ کے مطابق اداکار جلد ہی فلم میکر بن گئے اور سال 1924 میں صرف 24 برس کی عمر میں انہوں نے اپنا آر کے سٹوڈیو قائم کر لیا اور یوں اپنے عہد کے کم عمر ترین فلم میکر بن گئے۔‘
یہ فلم اوسط کاروبار ہی کر سکی مگر راج کپور ایک اداکار، ہدایت کار اور پروڈیوسر کے طور پر اپنی شناخت بنانے میں ضرور کامیاب رہے جب کہ اس فلم کے ذریعے راج کپور اور نرگس کی سدا بہار جوڑی کا بھی جنم ہوا جو آنے والے کئی برسوں تک بڑے پردے پر ایک ساتھ دکھائی دیتی رہی۔
سال 1949 اداکار کے فنی کیریئر میں فیصلہ کن ثابت ہوا۔ سال کا آغاز ہدایت کار محبوب خان کی فلم ’انداز‘ سے ہوا جس میں دلیپ کمار اور راج کپور ایک ساتھ نظر آئے جس کے بعد دونوں اداکار اپنے طویل کیریئر میں کبھی ایک ساتھ بڑے پردے پر دکھائی نہیں دیے۔ یہ فلم سپرہٹ رہی اور یوں راج کپور کا شمار اُس عہد کے کامیاب ترین اداکاروں میں ہونے لگا۔
اسی برس راج کپور کی بطور پروڈیوسر اور ہدایت کار دوسری فلم ’برسات‘ ریلیز ہوئی جس میں اُن کے ساتھ ایک بار پھر نرگس نظر آئیں۔ یہ فلم بلاک بسٹر ثابت ہوئی اور یوں راج کپور ایک کامیاب پروڈیوسر اور ہدایت کار کے طور پر خود کو ثابت کرنے میں کامیاب رہے جب کہ اداکار کے طور پر وہ اپنی پہچان پہلے ہی بنا چکے تھے۔
یہ فلم اس لیے بھی رجحان ساز ثابت ہوئی کہ اس کے ذریعے موسیقاروں کی جوڑی شنکر جے کشن اور شاعروں شیلندر اور حسرت جے پوری نے اپنا ڈیبیو کیا تھا جو ازاں بعد راج کپور کی تخلیقی ٹیم کا اہم ترین حصہ قرار پائے۔
یہ ذکر کرنا ازبس ضروری ہے کہ آنے والے برسوں میں مصنف خواجہ احمد عباس اور گلوکار مکیش بھی راج کپور کی تخلیقی ٹیم کا لازمی حصہ بن گئے، گلوکار مکیش کو تو راج کپور اپنی ’آواز‘ قرار دیا کرتے تھے۔

راج کپور 10 برس کی عمر میں فلم ’انقلاب‘ میں چائلڈ آرٹسٹ کے طور پر کام کر چکے تھے (فائل فوٹو: راج کپور فینز انسٹاگرام)

یہ فلم اپنے ایورگرین گیتوں، ’ہوا میں اُڑتا جائے میرا لال ڈوپٹہ ململ کا‘، ’پتلی کمر ہے، ترچھی نظر ہے‘ اور ’جیا بے قرار ہے، چھائی بہار ہے‘ کی وجہ سے بھی یاد رکھی جائے گی۔ اس فلم پر ہی اکتفا نہیں بلکہ راج کپور نے اپنی ہر فلم کی موسیقی پر خاص توجہ دی۔
راج کپور کے چھوٹے بھائی اور لیجنڈ اداکار ششی کپور نے ایک دستاویزی فلم میں بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’وہ ایک حیران کن موسیقار تھے۔۔۔ میرا خیال ہے کہ اُن میں پیدائشی طور پر یہ صلاحیت موجود تھی جو غالباً انہیں والد سے نہیں بلکہ والدہ سے ودیعت ہوئی تھی جو گلوکارہ تھیں۔۔۔ وہ کوئی بھی ساز بجا سکتے تھے چاہے وہ اکارڈین، طبلہ، پیانو، بانسری یا دف ہوتا۔‘
سال 1950 میں راج کپور ’سرگم‘، ’داستان‘ اور ’بھونرے نین‘ جیسی کامیاب فلموں میں نظر آئے۔ ’داستان‘ کے ہدایت کار اے آر کاردار تھے جو لاہور میں فلمی صنعت کے بانی اور بھاٹی گیٹ کے معروف کاردار خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ پاکستانی کرکٹ ٹیم کے پہلے کپتان عبدالحفیظ کاردار بھی اسی خاندان سے تھے۔
سال 1951 میں راج کپور کی یادگار فلم ’آوارہ‘ ریلیز ہوئی جس کے پروڈیوسر اور ہدایت کار بھی وہ خود تھے۔ یہ فلم انڈیا میں ہی نہیں بلکہ سوویت یونین، مشرقی ایشیا، افریقہ، مشرقی یورپ اور مشرقِ وسطیٰ میں بھی یکساں طور پر مقبول ہوئی۔
اخبار ’انڈین ایکسپریس‘ اپنے ایک مضمون میں لکھتا ہے کہ ’اُن (راج کپور) کی فلمیں تقسیم کے بعد کے انڈیا کی حقیقتوں، عام آدمی کے خوابوں اور دیہی و شہری زندگی میں موجود تضادات کا احاطہ کرتی ہیں۔ راج کپور کا سنیما جذبات، احتراع اور انسانیت پسندی کا مترادف بن گیا۔ آوارہ میں اُن کا مشہور کردار چارلی چپلن سے متاثر تھا، جسے دنیا بھر اور خاص طور پر سوویت یونین میں پسند کیا گیا۔‘

فلم ’انداز‘ میں دلیپ کمار اور راج کپور ایک ساتھ نظر آئے اور یہ سپرہٹ ثابت ہوئی (فائل فوٹو: انڈیا ڈاٹ کام)

راج کپور نے سیمی گریوال کی دستاویزی فلم، جو اُن کے ساتھ فلم ’میرا نام جوکر‘ میں کام کر چکی تھیں، میں بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’یہ سکرپٹ میرے پاس اُس وقت آیا جب انڈیا ایک نئے سماجی تصور کو فروغ دے رہا تھا، ایک ایسا تصور جو لاکھوں کروڑوں افراد کے لیے قابلِ قبول تھا، نہ کہ مٹھی بھر اشرافیہ کے لیے۔‘
سال 2012 میں ٹائمز میگزین نے ‘آوارہ‘ کو تمام زمانوں کی 100 عظیم ترین فلموں میں شامل کیا تھا۔ اس فلم کا گیت ’آوارہ ہوں‘ اگر چین کے انقلابی رہنما ماؤزے تنگ کا پسندیدہ گیت تھا تو اس کے باقی گیت ’گھر آیا میرا پردیسی‘، ’دم بھر جو اُدھر منہ پھیرے‘، ’اک بے وفا سے پیار کیا‘، ’اب رات گزرنے والی ہے‘ اور ’جب سے بلم گھر آئے‘ بھی دہائیاں گزر جانے کے باوجود سماعتوں میں رَس گھولتے ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ اس فلم کا میوزک البم 1950 کی دہائی کی سب سے زیادہ فروخت ہونے والے میوزک البمز میں سے ایک تھا۔
راج کپور کے بیٹے اور اداکار رندھیر کپور کہتے ہیں کہ ’راج کپور صرف ایک فلم میکر نہیں تھے بلکہ ایک ویژنری انسان تھے جنہوں نے انڈین سنیما کا جذباتی منظرنامہ تخلیق کیا۔‘
فلم ‘آوارہ‘ کے بعد راج کپور کی بطور ہدایت کار اگلی فلم سال 1955 میں ’شری 420‘ ریلیز ہوئی۔ اس فلم میں راج کپور ایک بار پھر چارلی چپلن کا سا انداز اختیار کیے نظر آئے جس کے باعث اُن پر تنقید بھی کی جاتی ہے کہ انہوں نے چارلی چپلن کی نقالی کی۔

یہ تاثر کسی حد تک درست ہے کہ اداکار راج کپور چارلی چپلن کے کردار سے متاثر تھے (فائل فوٹو: ٹائمز ناؤ)

یہ تاثر کسی حد تک درست ہے کیوں کہ وہ چارلی چپلن سے متاثر تھے مگر انہوں نے اُن کو اس انداز سے نقل کیا کہ یہ اُن کی شناخت کا اہم حوالہ بن گیا۔ سب سے اہم یہ کہ انہوں نے درد اور خوشی کے جذبات کو ایک ساتھ پیش کیا۔ 
چارلی چپلن آن سکرین مستی کرتے نظر آتے تھے جب کہ اُن کا جیون دُکھوں سے عبارت تھا تو یوں راج کپور نے اپنا الگ انداز دیا کیوں کہ وہ المیہ اداکاری بھی کرلیتے تھے۔
اس کی ایک مثال فلم ’میرا نام جوکر‘ ہے جس سے چارلی چپلن کے ان الفاظ کی تصدیق ہوتی ہے کہ ’میں ہمیشہ بارش میں چہل قدمی کرنا پسند کرتا ہوں کیوں کہ کوئی آپ کو روتا ہوا نہیں دیکھ سکتا۔‘
راج کپور نے عام آدمی کی زندگی کے رنگوں کو کچھ یوں پیش کیا کہ اُس زمانے میں کوئی دوسرا ایسا نہیں کر سکتا تھا۔
’شری 420‘ سے قبل راج کپور کی ایک اور اہم فلم ’بوٹ پالش‘ ریلیز ہوئی جسے پروڈیوس تو راج کپور نے کیا تھا مگر اس فلم میں انہوں نے مرکزی کردار ادا نہیں کیا تھا۔ اس کا موضوع بھی اُن کی گذشتہ فلموں سے مختلف نہیں تھا۔
راج کپور نے اس بارے میں اخبار انڈین ایکسپریس میں لکھا تھا کہ ’میں نے ’آوارہ‘ میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ کوئی بھی انسان آوارہ پیدا نہیں ہوتا بلکہ اُس کا جنم ہمارے جدید شہروں کی کچی آبادیوں میں شدید ترین غربت اور ناموافق حالات میں ہوتا ہے۔
’بوٹ پالش‘ یتیم بچوں کو درپیش مسائل، بقا کے لیے اُن کی جدوجہد اور منظم بھیک مانگنے کے خلاف اُن کی تگ و دو کو دکھاتی ہے۔‘

راج کپور کے بیٹے رشی کپور، رندھیر کپور اور راجیو کپور بھی اداکاری میں آئے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

سال 1964 راج کپور کے کیریئر میں اہم سنگ میل ثابت ہوا جب فلم ’سنگم‘ ریلیز ہوئی۔ یہ بالی وڈ کی پہلی رنگین فلم تو تھی ہی بلکہ یہ پوری فلم ہی بیرونِ ملک شوٹ کی گئی تھی اور اس کے ذریعے ایک ایسے راج کپور کا جنم ہوا جو تبدیل ہوتے ہوئے رجحانات سے الگ تھلگ نہیں تھا جس کے باعث یہ فلم باکس آفس پر زبردست کامیاب رہی۔
آنے والے برسوں میں اُن کی فلمیں ’بوبی‘، ‘ستیوم شیوم سندرم‘ اور ’رام تیری گنگا میلی‘ بولڈ مناظر کے باعث تنازعات کا شکار ہوئیں لیکن اداکار کی بیٹی ریتو نندا کتاب ‘راج کپور سپیکس‘ میں اپنے والد کا یہ بیان نقل کرتی ہیں کہ ’ہم برہنہ پن کو دیکھ کر چونک جاتے ہیں، ہمیں میچور ہونے کی ضرورت ہے۔
’میں نے ہمیشہ خواتین کو احترام دیا ہے لیکن میں یہ نہیں جانتا کہ مجھ پر کیوں خواتین کا استحصال کرنے کا الزام لگایا جا رہا ہے۔ (فیڈریکو) فیلینی کی خواتین کو آرٹ تصور کیا جاتا ہے لیکن جب میں خواتین کی خوب صورتی کو سکرین پر دکھاتا ہوں تو اسے استحصال کا نام دیا جاتا ہے۔‘
راج کپور نے اپنے کیریئر کے عروج پر’میرا نام جوکر‘ بنائی جو اُن کا ڈریم پروجیکٹ تھا۔ یہ کامیاب نہ ہو سکی مگر اسے آنے والے برسوں میں کلٹ فلم کا درجہ حاصل ہوا۔ اس فلم کی ناکامی کے بعد ان خدشات کا اظہار کیا جانے لگا تھا کہ راج کپور دوبارہ اپنے قدموں پر کھڑے نہیں ہو سکیں گے۔
تاہم انہوں نے تین برس بعد ہی سال 1973 میں ریلیز ہونے والی فلم ’بوبی‘ کے ذریعے اس تاثر کو غلط ثابت کر دیا جس میں انہوں نے اپنے بیٹے رشی کپور کو لانچ کیا تھا۔ اداکارہ ڈمپل کپاڈیہ نے بھی اسی فلم کے ذریعے اپنے فنی سفر کا آغاز کیا۔
فلم ’بوبی‘ نے آر کے فلمز کے تمام خسارے پورے کر دیے اور راج کپور نے رومانی فلموں کا ایک نیا آہنگ دیا۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ راج کپور نے ایک بار پھر رِسک لیا تھا مگر وہ ہمیشہ کی طرح کامیاب رہے۔

راج کپور نے اداکارہ نرگس کی شادی کی خبر پر بارہا سگریٹ سے خود کو جلایا (فائل فوٹو: ریڈٹ)

راج کپور کے پوتے اداکار رنبیر کپور کہتے ہیں کہ ’وہ نئے اداکاروں کے ساتھ فلم بنانے کا حوصلہ رکھتے تھے، 50 برس کا ایک شخص نوجوانوں کے لیے فلم بنا رہا ہے۔‘
’اس کا مطلب ہے کہ وہ حقیقت میں وقت کے ساتھ خود کو تبدیل کرتے رہے۔ وہ کوئی ایسے انسان نہیں تھے جو دنیا سے الگ تھلگ ہو گئے ہوں بلکہ وہ مستقل طور پر عام لوگوں سے جُڑے رہے۔‘
راج کپور کی زیست کا بیاں ہو اور نرگس کا ذکر نہ ہو تو یہ ممکن نہیں۔ دونوں کی پریم کہانی شہ سرخیوں میں رہی۔
’رام تیری گنگا میلی‘ کی کامیابی پر انڈیا کے سرکاری براڈکاسٹر ’پرسار بھارتی‘ کی جانب سے بنائی گئی دستاویزی فلم میں اداکار نے نرگس کے ساتھ اپنے تعلقات پر تفصیل سے بات کی تھی جن کے ساتھ انہوں نے 18 فلموں میں کام کیا۔
راج کپور نے اس دستاویزی فلم میں یہ انکشاف کیا تھا کہ اُن کی جب نرگس سے ملاقات ہوئی تو وہ پہلے سے شادی شدہ اور بچوں کے باپ تھے اور نرگس اُس وقت 16 برس کی تھیں۔
راج کپور نے ہمیشہ سے کچھ حدود کا تعین کر رکھا تھا جیسا کہ اُن کی اہلیہ اداکارہ نہیں ہوں گی اور اُن کی اداکارہ اُن کی اہلیہ نہیں ہوں گی۔
اخبار ’ٹائمز آف انڈیا‘ میں شائع ہونے والے ایک مضمون کے مطابق، ’اہلیہ سے اُن کا مطلب ’بچوں کی ماں‘ ہونا تھا‘، تاہم وہ  نرگس کی سنیل دَت سے شادی پر دل گرفتہ ضرور ہوئے تھے اور ایک عرصہ تک اسے ’بے وفائی‘ سے تعبیر کرتے رہے تھے۔‘
مصنفہ مادھو جین اپنی کتاب ’کپورز: انڈین سنیما کا پہلا خاندان‘ میں اس کہانی کو تفصیل سے بیان کرتی ہیں اور یہ انکشاف کرتی ہیں کہ نرگس کی شادی کی خبر پر انہوں نے بارہا سگریٹ سے خود کو جلایا تاکہ یہ یقین کر لیں کہ وہ خواب نہیں دیکھ رہے۔
راج کپور کی کرشنا ملہوترا سے گھر والوں کی پسند سے شادی ہوئی تھی جو ازاَں بعد کرشنا راج کپور کہلائیں۔ وہ اداکاری سے دور ہی رہیں۔

سنہ 1950 میں راج کپور ’سرگم‘، ’داستان‘ اور ’بھونرے نین‘ جیسی کامیاب فلموں میں نظر آئے (فائل فوٹو: پنٹرسٹ)

انہوں نے مصنف اور صحافی بنی ریوبن سے بات کرتے ہوئے اُن دنوں کا احوال سنایا تھا جب نرگس کی شادی ہوئی تھی، انہوں نے کہا تھا کہ ’وہ (راج کپور) ہر رات شراب کے نشے میں دھت ہو کر گھر آتے، اور اکثر باتھ ٹب میں گِر جاتے اور زار و قطار رونے لگتے۔‘
راج کپور نے اگرچہ کبھی نرگس پر کھل کر تنقید نہیں کی لیکن وہ اپنے رشتے میں پیدا ہونے والی ان دوریوں کی وجہ اداکارہ کے بھائیوں کو قرار دیتے تھے اور نجی محفلوں میں اسے بے وفائی سے تعبیر کرتے تھے۔
راج کپور اور وجنتی مالا کے افیئر کی خبریں بھی زبان زدعام رہیں۔ ان دونوں نے فلم ’سنگم‘ میں ایک ساتھ کام کیا تھا۔ وجنتی مالا نے اگرچہ اپنی سوانح عمری میں اسے آر کے سٹوڈیوز کا پی آر سٹنٹ قرار دیا تھا۔
تاہم رشی کپور اپنی سوانحی عمری ’کھلم کھلا‘ میں لکھتے ہیں کہ ’میں اُس وقت بہت چھوٹا تھا جب میرے والد کا نرگس جی کے ساتھ افیئر ہوا۔ مجھے یاد نہیں کہ گھر میں کوئی مسئلہ پیدا ہوا ہو۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے یاد ہے کہ میں اُس وقت اپنی والدہ کے ساتھ میرین ڈرائیو کے نٹراج ہوٹل منتقل ہو گیا تھا جب میرے والد کا وجنتی مالا کے ساتھ افیئر چل رہا تھا۔‘
راج کپور کے بیٹے رشی کپور، رندھیر کپور اور راجیو کپور بھی اداکاری میں آئے جب کہ اُن کے پوتے رنبیر کپور اور پوتیوں کرشمہ کپور اور کرینہ کپور کا شمار بھی کامیاب اداکاراؤں میں کیا جاتا ہے۔
یہ دو مئی 1988 کا دن تھا جب راج کپور دہلی میں ہندی سنیما کا سب سے بڑا اعزاز دادا صاحب پھالکے ایوارڈ وصول کرنے کے لیے موجود تھے کہ وہ دمہ کے شدید حملے کے باعث آڈیٹوریم میں گِر گئے۔ انہیں فوری طور پر ہسپتال لے جایا گیا جہاں وہ ایک ماہ تک زیرِعلاج رہے اور دو جون کو چل بسے۔
راج کپور بڑے ہدایت کار تھے، اداکار یا پروڈیوسر؟ اس سوال کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ انہوں نے اپنے ہر کردار کے ساتھ انصاف کیا اور چار دہائیوں پر محیط کیریئر میں یہ ثابت کر دیا کہ وہ حقیقت میں بالی وڈ کے عظیم ترین ’شومین‘ تھے جن کے ذکر کے بغیر ہندی فلمی روایت کا احاطہ کرنا کسی طور پر ممکن نہیں۔

شیئر: