عراق میں اجتماعی قبر کا انکشاف، تقریباً 100 کرد خواتین اور بچوں کی باقیات برآمد
تل الشیخیہ میں دریافت ہونے والی یہ دوسری اجتماعی قبر ہے۔ فوٹو: اے ایف پی
عراق کے جنوبی صوبہ مثنیٰ کے علاقے تل الشیخیہ میں ایک اجتماعی قبر سے ایک سو کرد خواتین اور بچوں کی باقیات ملی ہیں جن کے بارے میں خیال کیا جا رہا ہے کہ انہیں 1980 کی دہائی میں صدام حسین کے دورِ حکومت میں قتل کیا گیا تھا۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق عراقی حکام کا کہنا ہے کہ لاشوں کی باقیات کو نکالنے کا کام جاری ہے۔
عراقی عہدیدار ضیا کریم نے بتایا کہ یہ اجتماعی قبر 2019 میں دریافت ہوئی تھی اور رواں ماہ کے آغاز پر خصوصی ٹیموں نے باقیات کو نکالنے کا کام شروع کیا ہے۔
ضیا کریم کے مطابق اسی مقام پر دریافت ہونے والی یہ دوسری اجتماعی قبر ہے۔
انہوں نے اے ایف پی کو بتایا کہ مٹی کی پہلی تہہ ہٹانے کے بعد باقیات زیادہ واضح طور پر نظر آنا شروع ہوئیں جس سے معلوم ہوا کہ بچے اور خواتین یہاں دفن تھے جنہوں نے موسم بہار کی مناسبت سے لباس پہنے ہوئے تھے۔
ضیا کریم کا کہنا ہے کہ ممکنہ طور یہ جنوبی صوبہ سلیمانیہ کے علاقے کلار سے یہاں آئے تھے جنہیں بعد میں یہاں دفنایا گیا۔
انہوں نے بتایا کہ اگرچہ ان کی تعداد ایک سو سے کم نہیں ہے تاہم بڑھنے کا خدشہ موجود ہے۔
سنہ 1980 کی دہائی میں عراق کی ایران کے ساتھ شدید لڑائی کے بعد صدام حسین کی حکومت نے 1987 اور 1988 کے درمیان’انفال آپریشن‘ کا آغاز کیا تھا جس میں ایک لاکھ 80 ہزار افراد کو قتل کیا گیا۔
ضیا کریم نے بتایا کہ اجتماعی قبر میں جن افراد کی لاشیں ملی ہیں ان کو اسی مقام پر سر میں نزدیک سے گولی مار کر ہلاک کیا گیا تھا۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ کچھ افراد کے ’زندہ جلائے جانے‘ کے خدشے کو رَد نہیں کیا جا سکتا کیونکہ کچھ لاشوں میں گولیوں سے مارے جانے کے شواہد نہیں ملے۔
عراقی حکومت کے اندازے کے مطابق صدام حسین کے دور میں ہونے والے مظالم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے نتیجے میں 1980 سے 1990 کے درمیان 13 لاکھ افراد لاپتہ ہوئے۔