بلوچستان کے ضلع قلعہ سیف اللہ سے ایک روز قبل اغوا ہونے والے شخص کو بازیاب کرا لیا گیا۔ حکام کا کہنا ہے کہ علاقے کے سینکڑوں لوگوں اور لیویز فورس نے اغوا کاروں کا مسلسل 24 گھنٹے پیچھا کرنے کے بعد تین اغوا کاروں کو ہلاک کردیا۔
ڈپٹی کمشنر قلعہ سیف اللہ سعید احمد دمڑ نے اردو نیوز کو ٹیلیفون پر بتایا کہ بدھ کو قلعہ سیف اللہ کے نواحی علاقے گوال اسماعیل زئی سے نامعلوم افراد نے ایک کلینک سے دو افراد کو اغوا کرلیا تھا ۔ ان میں ژوب کے رہائشی کمپوڈر (ہیلتھ ٹیکنیشن) جمعہ رحیم اور گوال اسماعیل زئی کے رہائشی مسعود خان شامل تھے۔
انہوں نے بتایا کہ مزاحمت کرنے پر اغوا کاروں نے مغوی مسعود خان کو قتل کردیا اور دوسرے مغوی کو لے کر فرار ہوگئے۔
مزید پڑھیں
ڈپٹی کمشنر کے مطابق واقعہ کی بروقت اطلاع ملنے پر لیویز فورس اور قریبی علاقوں کے لوگوں نے ملزمان کا پیچھا کیا جس پر وہ گاڑی چھوڑ کر قریبی پہاڑ کی طرف فرار ہوگئے۔ یہ پہاڑ ژوب سے ملحقہ ہے اس لیے ژوب کی انتظامیہ کو بھی مطلع کیا گیا۔
ڈپٹی کمشنر سعید احمد دمڑ نے مزید بتایا کہ آج قلعہ سیف اللہ کی سرحد کے قریب ضلع ژوب کی حدود میں موسیٰ زئی کے پہاڑی علاقے میں اغوا کاروں کو دیکھا گیا جس پر قریبی علاقے کے لوگوں اور دونوں اضلاع کی لیویز فورس نے ملزمان کا تعاقب کیا۔
انہوں نے بتایا کہ لوگوں کے تعاقب کے بعد اغوا کاروں نے مغوی کو چھوڑ دیا تھا۔ تاہم عوام اور لیویز فورس نے پھر بھی ملزمان کا پیچھا نہیں چھوڑا اور انہیں ایک پہاڑی علاقے میں گھیرے میں لے لیا اس دوران فائرنگ کا تبادلہ بھی ہوا۔
انہوں نے بتایا کہ لیویز کو تین اغوا کاروں کی لاشیں ملی ہیں جن میں سے دو کے بارے میں ہمیں شبہ ہے کہ انہوں نے خود کو دستی بم کے دھماکے سے اڑایا ہے۔
تاہم ژوب کی حدود میں آپریشن کی سربراہی کرنے والے ژوب کے اسسٹنٹ کمشنر نوید عالم نے اردو نیوز کو بتایا کہ تینوں ملزمان فائرنگ سے مارے گئے ان میں سے ایک کا دستی بم گولی لگنے سے پھٹا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ہمیں شبہ ہے کہ اغوا کاروں کا چوتھا ساتھی فرار ہوگیا ہے اس لیے ان کی تلاش جاری ہے۔
اسسٹنٹ کمشنر ژوب کا کہنا تھا کہ سواڑہ ڈیم کے قریب ملزمان کی موجودگی پر لیویز اور ایف سی نے علاقے کے لوگوں کے ساتھ ملکر یہ آپریشن کیا۔
انہوں نے مزید بتایا کہ بازیاب ہونے والے جمعہ رحیم کی حالت بہتر ہے اور انہیں ژوب کے سول ہسپتال میں طبی امداد دی گئی۔
سوشل میڈیا پر سامنے آنے والے ویڈیوز میں دیکھا جاسکتا ہے کہ سینکڑوں لوگ پہاڑوں میں اغوا کاروں کا پیچھا کررہے ہیں۔ قلعہ سیف اللہ کے ڈپٹی کمشنر سعید احمد دمڑ کا کہنا ہے کہ یہ عوام کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں تھا کیونکہ علاقے میں تعینات لیویز اہلکاروں کی تعداد پچیس سے بھی کم ہے۔
انہوں نے بتایا کہ لوگوں نے واٹس اپ گروپس بنا کر باقاعدہ مہم چلائی، ایک علاقے کے لوگ دوسرے علاقے کے لوگوں کو فون کرکے متحرک کرتے رہے اس طرح عوام کے نکلنے سے ملزمان خوفزدہ ہوگئے اور انہوں نے مغوی کو چھوڑ دیا۔
بازیاب ہونےوالے جمعہ رحیم کے بھائی ڈاکٹر امین کا کہنا ہے کہ یہ ژوب اور قلعہ سیف اللہ دونوں اضلاع کی عوام کی بیداری کا نتیجہ ہے جو بلا تفریق صرف امن کے لیے باہر نکلے۔
انہوں نے کہا کہ مغوی کی بازیابی اور ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچانے کا سہرا انتظامیہ نہیں بلکہ علاقے کے مقامی قبائل کو جاتا ہے جنہوں نے مسلسل 24 گھنٹے پہاڑوں میں ملزمان کا پیچھا کیا جس پر ہم ان کے شکر گزار ہیں۔
واقعہ کے خلاف ژوب میں آل پارٹیز ایکشن کمیٹی اور مختلف تنظیموں نے قومی شاہراہ بند کرکے احتجاج کیا۔ ژوب کے شہید شمس الدین چوک پر احتجاجی مظاہرہ بھی کیا گیا۔
مظاہرین کا کہنا تھا کہ حکومت عوام کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہوچکی ہے اس لیے عوام کو خود دہشتگردوں اور ان کی سرپرستی کرنے والوں کے خلاف میدان میں نکلنا ہوگا۔
بعض اطلاعات کے مطابق اغوا کاروں کا تعلق کالعدم تنظیم سے تھا جنہوں نے تاوان کے لیے یہ واردات کی۔
ڈپٹی کمشنر قلعہ سیف اللہ نے اس بات کی تصدیق کی کہ ایک مغوی کے اہلخانہ کو واقعہ سے کچھ عرصہ قبل نامعلوم افراد نے فون کرکے رقم کا مطالبہ کیا تھا۔
ان کا کہنا ہے کہ اغوا کے اس واقعہ میں کون لوگ ملوث ہیں اور اغوا کار کون ہیں اس بارے میں تحقیقات جاری ہیں۔