اسرائیل اور حماس کے درمیان اتوار کو غزہ میں جنگ بندی کے بعد فلسطینی جشن منانے اور بمباری سے تباہ اپنے گھروں کی طرف لوٹنے کے لیے سڑکوں پر نکل آئے۔ دوسری طرف حماس نے جنگ بندی کے معاہدے کے تحت پہلے تین یرغمالیوں کو ریڈکراس کے حوالے کر دیا ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق لائیو ٹیلی ویژن کوریج میں تین خواتین یرغمالیوں کو حماس کے مسلح افراد نے گھیرے ہوئے ایک گاڑی سے باہر نکلتے ہوئے دیکھا گیا۔ یرغمالی ریڈ کراس کی بین الاقوامی کمیٹی کی گاڑیوں میں سوار ہو گئے جبکہ جنگجوؤں کے ہجوم نے حماس کے مسلح ونگ کے نام کے نعرے لگائے۔
ایک اسرائیلی اہلکار نے روئٹرز کو بتایا کہ ریڈ کراس کے مطابق خواتین کی صحت اچھی ہے۔ اس سے قبل حماس نے رہا ہونے والے پہلے تین اسرائیلی یرغمالیوں کی شناخت رومی گونن، ڈورون سٹین بریچر اور ایملی دماری کے طور کی۔
مزید پڑھیں
-
اسرائیلی کابینہ نے غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے کی منظوری دے دیNode ID: 884589
دوسری جانب اسرائیلی مقبوضہ مغربی کنارے میں بسیں اسرائیلی حراست سے فلسطینی قیدیوں کی رہائی کی منتظر تھیں۔ حماس نے کہا ہے کہ یرغمالیوں کے بدلے رہا ہونے والے پہلے گروپ میں 69 خواتین اور 21 نوعمر لڑکے شامل ہیں۔
قبل ازیں جنگ بندی کے آغاز کے بعد غزہ میں ہزاروں فلسطینی سڑکوں پر نکل آئے۔ ان میں سے کچھ خوشی منا رہے تھے تو کچھ اس جنگ میں لقمہ اجل بننے والے اپنے رشتے داروں کی قبر پر گئے جبکہ بعض اپنے گھروں کو گئے تاکہ دیکھ سکیں کہ وہاں کیا بچا ہے۔
غزہ شہر سے بے گھر ہونے والی ایک خاتون آیہ نے کہا کہ ’مجھے ایسا لگتا ہے کہ 15 مہینے صحرا میں گم رہنے کے بعد آخر کار مجھے پینے کے لیے پانی مل گیا۔ میں دوبارہ زندہ محسوس کر رہی ہوں۔‘
غزہ کی پٹی کے شمال میں جہاں کچھ شدید ترین اسرائیلی فضائی حملے اور جنگجوؤں کے ساتھ لڑائیاں ہوئیں، سینکڑوں افراد نے ملبے کے تباہ کن منظر نامے سے اپنے راستے کا انتخاب کیا۔
15 ماہ کے تباہ کن تنازعے کے بعد جنگ بندی معاہدے پر عمل درآمد میں تقریباً تین گھنٹے کی تاخیر کے باوجود حماس کے مسلح جنگجو جنوبی شہر خان یونس سے گزرے جہاں ہجوم خوشی منا رہا تھا اور نعرے لگا رہا تھا۔
پولیس کی نیلی وردیوں میں ملبوس حماس کے پولیس اہلکار جو کئی ماہ تک چھپنے کی کوششوں میں لگے رہے تاکہ اسرائیلی فضائی حملوں سے بچا جا سکے، کو کچھ علاقوں میں تعینات کیا گیا تھا۔
جنگجوؤں کو خوش کرنے کے لیے جمع ہونے والے افراد نے حماس کے مسلح ونگ ’كتائب القسام کو سلام‘ کے نعرے لگائے۔
ایک جنگجو نے روئٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’نیتن یاہو کی کوششوں کے باوجود تمام مزاحمتی دھڑے موجود ہیں۔‘
جنگ بندی کا معاہدہ تقریباً تین گھنٹے کی تاخیر کے بعد نافذ العمل ہوا، اس نے ایک ایسی جنگ کو روک دیا ہے جو مشرق وسطیٰ میں ڈرامائی سیاسی تبدیلی لائی ہے۔ اس جنگ بندی نے غزہ کے 23 لاکھ افراد کو امید دی ہے جن میں سے اکثر کئی بار بے گھر ہو چکے ہیں۔
فلسطینی سول ایمرجنسی سروس نے کہا کہ جنگ بندی میں تاخیر کے دوران اسرائیلی فوج کے حملوں میں کم از کم 13 افراد ہلاک ہوئے۔ لیکن جب مقامی وقت کے مطابق صبح 11 بج کر 15 منٹ پر یہ نافذ العمل ہو گئی تو مزید کسی حملے کی اطلاع نہیں ملی۔
آیہ نامی خاتون کا کہنا تھا کہ ’اب ہم اس دن کا انتظار کر رہے ہیں جب ہم غزہ شہر میں اپنے گھر واپس جائیں گے۔ (گھروں کو) نقصان پہنچا یا نہیں، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، موت اور بھوک کا خواب ختم ہو گیا ہے۔‘
امدادی ٹرک غزہ میں داخل
غزہ شہر کی سڑکوں پر لوگوں کے مختلف گروہ فلسطینی جھنڈے لہرا رہے تھے اور اپنے موبائل فونز سے ویڈیوز بنا رہے تھے۔
غزہ شہر کے 40 سالہ رہائشی احمد ابو ايهم جو خان یونس میں اپنے خاندان کے ساتھ پناہ لیے ہوئے تھے، نے کہا کہ ان کے آبائی شہر میں تباہی کا منظر ’خوفناک‘ ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگرچہ جنگ بندی سے جانیں بچ جائیں گی لیکن یہ جشن منانے کا وقت نہیں ہے۔
’ہم درد میں ہیں، گہرے درد میں ہیں اور اب وقت آ گیا ہے کہ ہم ایک دوسرے سے گلے ملیں اور روئیں۔‘
دوسری جناب ایندھن اور امدادی سامان لے جانے والے ٹرکوں کی لمبی قطاریں سرحدی گزرگاہوں پر جنگ بندی کے نافذ ہونے سے چند گھنٹوں پہلے ہی لگ گئیں۔ ورلڈ فوڈ پروگرام نے کہا کہ انہوں نے اتوار کی صبح سرحدی گزرگاہوں کو پار کرنا شروع کیا۔
اس معاہدے کے تحت ابتدائی چھ ہفتے کی جنگ بندی کے دوران ہر روز امداد کے 600 ٹرکوں کو غزہ جانے کی اجازت دی جائے گی، جس میں ایندھن لے جانے والے 50 ٹرک بھی شامل ہیں۔ 600 امدادی ٹرکوں میں سے نصف غزہ کے شمال میں پہنچائے جائیں گے، جہاں ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ قحط آنے والا ہے۔