Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مراکش کشتی حادثے میں پاکستانیوں کا ’ہتھوڑے مار کر قتل‘، انسانی سمگلروں کیخلاف مقدمات کا فیصلہ

16 جنوری کو افریقی ملک موریطانیہ سے غیرقانونی طور پر سپین جانے والوں کی کشتی کو مبینہ حادثہ پیش آیا تھا (فائل فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے مراکش کشتی سانحہ میں ہلاک ہونے والے افراد کے اہلِ خانہ سے رابطہ قائم کیا ہے اور لواحقین کی جانب سے ان الزامات کے بعد کہ ان کے بچوں کو قتل کر کے سمندر میں پھینکا گیا، انسانی سمگلروں کے خلاف قتل کے مقدمات درج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ 
دوسری جانب پاکستانی سفارت خانے کی جانب سے مراکش اور موریطانیہ کی حکومتوں سے بھی درخواست کی گئی ہے کہ وہ اس سانحہ میں بچ جانے والوں اور ہلاک ہونے والوں کے لواحقین کے بیانات کی روشنی میں تحقیقات کرتے ہوئے ملزموں کو کٹہرے میں لائے۔ 
16 جنوری کو افریقی ملک موریطانیہ سے غیرقانونی طور پر سپین جانے والوں کی کشتی کو مبینہ حادثہ پیش آیا تھا۔
مراکش میں حکام نے بتایا تھا کہ کشتی 86 تارکین وطن کو لے کر جا رہی تھی جو 2 جنوری کو موریطانیہ سے روانہ ہوئی تھی۔ اور ابتدائی طور پر اس حادثے کے نتیجے میں 44 پاکستانیوں سمیت 50 تارکینِ وطن کے ہلاک ہونے کا دعویٰ کیا گیا تھا۔
رباط میں مقامی حکام کا کہنا تھا کہ کشتی میں مجموعی طور پر 66 پاکستانی سوار تھے جب کہ 36 افراد کو بچا لیا گیا تھا۔
پاکستانی شہریوں کی ہلاکتوں کی تفتیش کے لیے سنیچر کو وفاقی تفتیشی ایجنسی (ایف آئی اے) کی چار رکنی ٹیم رباط روانہ ہوئی تھی۔
تاہم اس کشتی میں بچ جانے والوں نے انکشاف کیا ہے کہ ’کشتی کو کوئی حادثہ پیش نہیں آیا بلکہ افریقی ایجنٹوں نے پاکستانی ایجنٹوں کے ساتھ لین دین کا وعدہ پورا نہ ہونے پر پاکستانیوں کو تشدد کرکے، سروں پر ہتھوڑے مار کر اور ہاتھ پاؤں توڑ کر قتل کیا تھا۔‘ 
اردو نیوز نے اس حوالے سے 16 جنوری کی رات کو ہلاک ہونے والوں کے لواحقین کے اہل خانہ سے بات کی تھی جنہوں نے انکشاف کیا تھا کہ ان کے بچوں کو قتل کیا گیا ہے۔
لواحقین نے بچ جانے والے گجرات کے ایک نوجوان علی سے ہونے والی گفتگو کی ایک آڈیو بھی اردو نیوز کے ساتھ شیئر کی تھی جس میں علی مارے جانے اور بچ جانے والوں کی تفصیل بتا رہے ہیں۔
 اس آڈیو میں علی نے بتایا ہے کہ ’انہوں نے ہتھوڑوں سے مارا۔ چار بندے پکڑتے اور ایک مارتا تھا۔ زیادہ تر لوگ بے ہوش تھے اور جو لڑ سکتے تھے وہ لڑے بھی۔ جب یقین ہوگیا کہ نہیں چھوڑیں گے، تو پھر ہر طرح سے التجا کی مگر وہ کسی کی نہیں سن رہے تھے۔‘

رباط میں مقامی حکام کا کہنا تھا کہ کشتی میں مجموعی طور پر 66 پاکستانی سوار تھے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

اس کے علاوہ بھی بچ جانے والے کئی دیگر افراد کی آڈیوز وائرل ہوئی ہیں اور وہ بھی اسی طرح کے مظالم کی داستان سنا رہے ہیں۔ 
تاہم دفتر خارجہ کی جانب سے جاری ہونے والے اب تک کے دو بیانات میں اس حوالے سے مکمل خاموشی اختیار کی گئی ہے۔ 
رابطہ کرنے پر حکام دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ ’اس طرح کے واقعات پر عموماً محتاط رویہ ہی اپنایا جاتا ہے اور سفارتی سطح پر فوری ردعمل ظاہر کرنے کے بجائے متعلقہ ممالک سے باضابطہ رابطہ کرکے درخواست کی جاتی ہے کہ وہ اس صورتِ حال کو دیکھیں۔ تفتیش کروائیں اور ملزموں کے خلاف کارروائی کریں۔‘ 
حکام نے بتایا ہے کہ ’اس سلسلے میں مراکش اور موریطانیہ کی حکومتوں سے رابطہ قائم کیا گیا ہے۔ تاہم کسی بھی ملک سے اس معاملے پر احتجاج اس لیے نہیں کیا جا سکتا کہ اس میں کوئی حکومت ملوث نہیں ہے بلکہ یہ جرائم پیشہ عناصر کا کام ہے جن کے خلاف تفتیش کا مطالبہ کیا جا سکتا ہے اور اس سے قبل ازخود کوئی نتیجہ اخذ نہیں کیا جا سکتا۔‘ 
دوسری جانب مراکش میں پاکستانی سفیر رابعہ قصوری نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’انسانی ٹریفکنگ ایک ایسا مسئلہ ہے جس کی کوئی حدود نہیں ہیں۔ پاکستان کی حکومت اور ادارے اس حوالے سے کام کر رہے ہیں اور اسے روکنے کے لیے کوششیں کی جا رہی ہیں۔‘
جب ان سے کشتی حادثے میں پاکستانیوں کی ہلاکت کے بارے میں استفسار کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’حکام اس حوالے سے تفتیش کر رہے ہیں اور ابھی اس بارے میں کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا۔‘ 
دوسری جانب اس سانحہ کے بعد ایف آئی اے ایک بار پھر متحرک ہو چکی ہے اور لواحقین سے رابطے شروع کر  دیے گئے ہیں۔ اس سلسلے میں ایف آئی اے کی ٹیموں نے ہلاک ہونے والے پاکستانیوں کے گھروں میں جا کر لواحقین سے ملاقاتیں کی ہیں اور ان سے مرنے والوں کے کوائف اور دیگر معلومات کے ساتھ ساتھ ایجنٹس کے بارے میں بھی تفصیلات حاصل کی ہیں۔ 

 ایف آئی اے کے مطابق ملزموں نے عامر علی کے اہل خانہ سے 53 لاکھ 50 ہزار روپے ہتھیائے تھے (فوٹو: ریڈیو پاکستان)

مرنے والوں کے لواحقین نے اردو نیوز کو بتایا ہے کہ ’ایف آئی اے کو حقیقت بتائی گئی ہے کہ بہتر مستقبل کی تلاش میں جانے والے اُن کے پیارے سمندر میں ڈوب کر نہیں مرے بلکہ انہیں بے رحمانہ طریقے سے مار کر سمندر میں پھینکا گیا ہے اور کچھ لاشیں مراکش کے ہسپتال میں موجود ہیں۔‘
ایف آئی اے حکام نے لواحقین کو یہ یقین دلایا ہے کہ ’کشتی سانحہ میں ہلاک ہونے والوں کی ایف آئی آرز ایجنٹوں کے خلاف درج کی جائیں گی اور اس میں قتل کی دفعات بھی شامل ہوں گی۔‘ 
لواحقین نے بچ جانے والے افراد سے ہونے والے گفتگو کی آڈیو اور ان کے وائس میسجز بھی ایف آئی اے ٹیموں کے ساتھ شیئر کیے ہیں۔ 
اس کے علاوہ فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی نے مراکش کشتی حادثے میں ملوث انسانی سمگلروں کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے گوجرانوالہ سے ایک اہم ملزم محمد انصر کو گرفتار کر لیا ہے۔
 ایف آئی اے حکام کے مطابق ملزم نے دیگر ساتھیوں کے ساتھ مل کر عامر علی کو غیر قانونی طریقے سے سپین بھجوانے کی کوشش کی تھی، جس کے لیے پہلے انہیں موریطانیہ پہنچایا گیا اور بعد ازاں کشتی کے ذریعے سپین بھجوانے کی کوشش کی گئی۔ اس افسوس ناک واقعے میں متعدد پاکستانی جان سے گئے ہیں، تاہم عامر علی کو مراکش کے حکام نے ریسکیو کر لیا۔
 ایف آئی اے کے مطابق ملزموں نے عامر علی کے اہل خانہ سے 53 لاکھ 50 ہزار روپے ہتھیائے تھے۔ گرفتار ملزم کے خلاف مقدمہ درج کر کے تفتیش کا آغاز کر دیا گیا ہے، جبکہ مزید گرفتاریوں کی توقع ہے۔
 ڈائریکٹر گوجرانوالہ زون عبدالقادر قمر کا کہنا ہے کہ ’انسانی سمگلنگ کے خلاف زیرو ٹالرنس پالیسی پر عمل جاری ہے، اور ایسے نیٹ ورکس کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے گا۔ ایف آئی اے ٹیمیں متاثرین کے لواحقین سے مسلسل رابطے میں ہیں، جبکہ انسانی سمگلروں کو سخت سزائیں دلوانے کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے جا رہے ہیں۔‘

 

شیئر: