لیبیا میں دو اجتماعی قبروں سے 50 تارکین وطن کی لاشیں برآمد، ’گولیاں ماری گئیں‘
لیبیا میں دو اجتماعی قبروں سے 50 تارکین وطن کی لاشیں برآمد، ’گولیاں ماری گئیں‘
اتوار 9 فروری 2025 14:39
انسانی سمگلرز کی جانب سے تارکین وطن پر تشدد کا بڑا مقصد ان کے خاندانوں سے پیسے کا حصول ہے (فائل فوٹو: روئٹرز)
لیبیا کے جنوبی مشرقی صحرا میں دو اجتماعی قبروں سے تقریباً 50 تارکین وطن کی لاشیں ملی ہیں۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) نے لیبیا کے حکام کے حوالے سے اتوار کو بتایا کہ ہلاک ہونے والے ان افراد کی اکثریت ان تارکین وطن کی ہے جو یورپ پہنچنا چاہتے تھے۔
لیبیا کے سکیورٹی ڈائریکٹوریٹ کے مطابق پہلی اجماعی قبر کا انکشاف جنوب مشرقی شہر کفرہ میں جمعے کو ہوا جس میں سے 19 افراد کی لاشیں ملیں جنہیں حکام نے پوسٹ مارٹم کے لیے تحویل میں لے لیا۔
لیبیا کے حکام کی جانب سے فیس بک پیجز پر پوسٹ کی گئی تصاویر میں پولیس اہلکاروں اور طبی عملے کو ریت کھودتے ہوئے اور کمبلوں میں لیٹی لاشیں نکالتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔
مشرقی و مغربی لیبیا میں تارکین وطن کی مدد کرنے والی تنظیم ’الأبرین‘ کے مطابق ان میں زیادہ تر افراد کو اجتماعی قبروں میں دفن کرنے سے قبل بظاہر گولیاں مار کر قتل کیا گیا ہے۔
کفرہ کے سکیورٹی چیمبر کے سربراہ محمد الفضیل نے بتایا کہ کفرہ میں انسانی سمگلنگ کے ایک اڈے پر چھاپے کے دوران دوسری اجتماعی قبر بھی ملی ہے جس سے 30 لاشیں برآمد کی گئی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ’زندہ بچ جانے والوں کے مطابق اس قبر میں تقریباً 70 افراد کو دفن کیا گیا تھا۔ حکام اس علاقے میں سرچ آپریشن کر رہے ہیں۔
لبییا میں تارکین وطن کی اجتماعی قبریں کوئی معمول کی چیز نہیں ہیں۔ البتہ گزشتہ برس دارالحکومت طرابلس سے 350 کلومیٹر جنوب میں شورف کے علاقے میں ایک اجتماعی قبر سے 65 تارکین وطن کی لاشیں برآمد ہوئی تھیں۔
واضح رہے کہ لیبیا غیرقانونی تارکین کے یورپ جانے کا ایک اہم سمندری راستہ ہے اور اٹلی پہنچنے کی کوششوں کے دوران کشتیاں الٹنے سے اب تک سینکڑوں افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
لیبیا میں سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے انسانی سمگلنگ کے نیٹ ورکس کافی زیادہ مضبوط ہوئے ہیں (فائل فوٹو: روئٹرز)
جنوری کے اختتام پر الواحات کے فوجداری مقدمات کی تحقیقات کرنے والے محکمے نے بتایا تھا کہ ’اس نے مختلف افریقی ممالک سے تعلق رکھنے والے 263 تارکین کو آزاد کروایا۔‘
محکمے کا مزید کہنا تھا کہ ’ان افراد کو ایک سمگلنگ گینگ نے قید کر رکھا تھا جہاں صحت اور رہائش کی صورت حال انتہائی ناگفتہ بہ تھی۔‘
لیبیا میں ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے سیاسی عدم استحکام کہ وجہ سے انسانی سمگلنگ کے نیٹ ورکس کافی زیادہ مضبوط ہوئے ہیں۔ چھ ممالک کی سرحد کے ساتھ لگنے والے اس ملک کو انسانی سمگلنگ کے ایک بڑے روٹ کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیمیں اور اقوام متحدہ کے ادارے ایک عرصے سے لیبیا میں تارکین وطن سے جبری مشقت لینے، ان پر تشدد اور ان کے جنسی استحصال سے متعلق خبردار کر رہے ہیں۔
انسانی سمگلرز کی جانب سے تارکین وطن پر تشدد کا بڑا مقصد ان کے خاندانوں سے پیسے کا حصول ہے۔
یورپ کے راستے میں پکڑے جانے والے تارکین جن میں بچے اور خواتین بھی شامل ہیں، انہیں لیبیا کی حکومت کے قائم کردہ حراستی مراکز میں رکھا جاتا ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں اور اقوام متحدہ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ سرکاری حراستی مراکز میں بھی تارکین کو تشدد اور ریپ کا سامنا ہے۔