اس کہانی کی ابتدا گذشتہ برس 26 دسمبر کو اس وقت ہوئی جب لاہور کی ایک خاتون وکیل سائرہ اشفاق عمرے پر جانے کے لیے گھر سے روانہ ہوئیں اور اس کے بعد گھر والوں سے منقطع ہونے والا رابطہ کبھی بحال نہ ہو سکا۔
لاہور پولیس کا کہنا ہے کہ چار جنوری کو سائرہ اشفاق کی بہن عائشہ خالد نے ان کے مبینہ اغوا کا مقدمہ درج کروایا۔
مزید پڑھیں
تھانہ نواب ٹاون میں درج ایف آئی آر کے مطابق سائرہ اشفاق گھر سے نکلیں اور پھر واپس نہیں آئیں اور خدشہ ہے کہ ان کو اغوا کر لیا گیا ہے۔
پولیس ان کو ڈھونڈنے میں مصروف ہو جاتی ہے، تاہم کوئی سراغ نہیں ملتا۔
اس کہانی کا دوسرا منظر شروع ہوتا ہے پنجاب کے ضلع حافظ آباد کے علاقے کالیکی منڈی میں، جب 14 جنوری کو جھنگ برانچ نہر سے ایک خاتون کی بوری بند لاش ملتی ہے اور مقامی افراد پولیس کو آگاہ کرتے ہیں۔
’لاش دو ہفتے ڈوبی رہی‘
تھانہ کالیکی منڈی کے سب انسپکٹر محمد زید بتاتے ہیں کہ ’یہ لاش پانی میں دو ہفتوں سے بھی زیادہ ڈوبی رہی جس وجہ سے وہ شناخت کے قابل بھی نہیں رہی تھی۔ ہم نے تصاویر پولیس کنٹرول رابطے کے ذریعے تمام تھانوں کو ارسال کر دیں، کچھ گھنٹے انتظار کیا پھر ایف آئی آر درج کر کے اس لاش کو امانتاً دفنا دیا۔‘
لاہور کے تھانہ نواب ٹاون کی تفتیشی ٹیم کے پاس چند دن کے بعد وہ تصویر پہنچی تو اس کے اہلکار شناخت میں ناکام رہے لیکن عمر اور کپڑوں کی وجہ سے تفتیشی افسر کو شک ہوا تو انہوں نے سائرہ اشفاق کے گھر رابطہ کیا جس کے بعد پولیس کی ٹیم وہاں پہنچی لیکن قانونی تقاضوں کے سبب لاش کو نکالا نہ جا سکا کیونکہ قبر کشائی کے لیے اب عدالت کی اجازت کی ضرورت تھی۔

دوسری شادی اور دو کروڑ قرض کا معاملہ
تفتیشی ٹیم کے مطابق اس بات کا کھوج لگایا جا چکا تھا کہ مقتولہ کو ان کے اپنے شوہر ایڈووکیٹ بلال نے ہی قتل کیا ہے۔ کال ریکارڈ ڈیٹا اور دیگر شواہد سے کافی کچھ سامنے آ چکا ہے۔ پولیس کے مطابق بلال نے دو شادیاں کر رکھی تھیں اور سائرہ ان کی دوسری بیوی تھیں۔
سائرہ اشفاق کے اکاؤنٹ میں دو کروڑ روپے تھے جو ان کی وراثت کی زمین سے ان کے حصے میں آئے تھے۔ ان کے شوہر نے وہ رقم ادھار لی تھی لیکن اب واپسی کے تقاضے پر ان کا جھگڑا شروع ہو چکا تھا اور اسی سبب بلال نے ایک منصوبے کے تحت سائرہ کو قتل کرنے کا فیصلہ کیا۔
پولیس کے جاری کردہ بیان سے یہ بات واضع ہو چکی تھی کہ اس اغوا اور بعدازاں قتل کے محرکات کا پتا چلا لیا گیا ہے اور اب صرف ملزم کی گرفتاری باقی ہے، لیکن صورت حال اس سے بھی زیادہ پیچیدہ ہے۔ سائرہ اشفاق کے خاندان نے ابھی تک نہ تو قبر کشائی کے لیے درخواست دی ہے اور نہ ہی لاش کا پوسٹ مارٹم کروایا ہے۔
اس مقدمے سے جڑے ایک پولیس اہلکار کا کہنا ہے کہ ’مقتولہ کی فیملی اور ملزم کے درمیان ان دنوں مذاکرات چل رہے ہیں۔ اور ملزم دو کروڑ یا جس بھی رقم کا تقاضہ کیا جا رہا ہے وہ دینے کو راضی ہو رہا ہے۔ چونکہ یہ شادی لو میرج تھی۔ اس لیے سائرہ کا اپنے خاندان سے تعلق بھی زیادہ گہرا نہیں رہا تھا۔‘

اردو نیوز نے اس حوالے سے مقتولہ کی اس بہن سے رابطہ کیا جن کی مدعیت میں سائرہ کے اغوا کا مقدمہ درج کیا گیا تھا، لیکن انہوں نے اس بارے میں تفصیلات فراہم کرنے سے انکار کر دیا۔
دوسری طرف پولیس کا کہنا ہے کہ وہ مقتولہ کے خاندان کی جانب سے تعاون کے منتظر ہیں، اگر وہ آگے نہیں بڑھیں گے تو قانون اپنا راستہ خود بنائے گا۔