’ماموں اور خالو میری والدہ کی فاتحہ پڑھنے پنجاب سے کوئٹہ آئے تھے ہمیں کیا پتہ تھا کہ واپسی پر ان کا بھی جنازہ پڑھایا جائے گا۔‘ یہ کہنا ہے کوئٹہ کے رہائشی اسد عباس کا جن کے دو رشتہ دار ان سات مسافروں میں شامل تھے جنہیں منگل اور بدھ کی درمیانی شب بلوچستان کے ضلع بارکھان کے علاقے رڑکن میں بس سے اتار کر فائرنگ کر کے قتل کیا گیا۔
ڈپٹی کمشنر بارکھان وقار خورشید عالم کے مطابق مسافر بس کو ڈیرہ غازی خان سے متصل بلوچستان کے آخری ضلع بارکھان میں کوئٹہ کو پنجاب سے ملانے والی این-70 شاہراہ پر درجن سے زائد مسلح افراد نے روکا۔ بس ڈرائیور نے بس بھگانے کی کوشش کی تو دہشت گردوں نے فائرنگ کر کے رکوا لیا۔ اس کے بعد مسافروں کے شناختی کارڈ چیک کر کے پنجاب سے تعلق رکھنے والے مسافروں کو نیچے اتار کر قتل کیا گیا۔
مزید پڑھیں
-
بلوچستان کے علاقے ہرنائی میں بم دھماکہ، 11 کانکن ہلاکNode ID: 885873
مقتولین میں کوئٹہ کے رہائشی بلوچستان کانسٹیبلری کے ریٹائرڈ ڈی ایس پی عاشق حسین، لاہور کے رہائشی عاصم علی، ضلع وہاڑی تحصیل بورے والا کے رہائشی عدنان مصطفیٰ، لودھراں کے رہائشی محمد اجمل، شیخوپورہ کے رہائشی محمد عاشق، فیصل آباد کے رہائشی شوکت علی اور سفیان انصاری شامل ہیں۔ میتیں ان کے آبائی علاقے منتقل کردی گئی ہیں۔
اسد عباس نے اردو نیوز کو بتایا کہ مقتولین میں 65 سالہ محمد عاشق ان کے ماموں جبکہ پچاس سالہ شوکت علی ان کے خالو کے ساتھ ساتھ اہلیہ کے ماموں تھے جو باقی رشتہ داروں کے ہمراہ ان کی والدہ کی فاتحہ پڑھنے کوئٹہ آئے تھے۔
انہوں نے کہا کہ مہمانوں نے گزشتہ روز واپسی کا ارادہ ظاہر کیا تو گھر والوں نے انہیں کچھ دن مزید ٹھہرنے کا کہا ’لیکن وہ واپس جانے کے لیے جیسے بے تاب تھے اور بضد تھے کہ انہیں آج ہی جانا ہے۔ مہمانوں کا کہنا تھا کہ ہمارا کوئٹہ میں دل نہیں لگ رہا۔‘
اسد عباس نے بتایا کہ ماموں اور خالو کے اصرار پر ہم نے کچھ رشتہ داروں کے لیے بس اور باقیوں کے لیے ٹرین کی ٹکٹوں کا بندوبست کیا۔
’ماموں اور خالہ دو دیگر رشتہ دار خواتین کے ہمراہ کل دوپہرکو کوئٹہ سے لاہور جانے والی بس میں سوار ہوئے جبکہ باقی رشتہ دار ٹرین میں روانہ ہوئے۔ رات کو ہمیں اطلاع ملی کہ انہیں شہید کر دیا گیا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ہمیں کیا پتہ تھا کہ انہیں اس طرح بے دردی سے قتل کر دیا جائےگا ورنہ ہم انہیں کبھی جانے ہی نہیں دیتے بلکہ کوئٹہ آنے سے ہی منع کر دیتے۔‘
لواحقین کے مطابق مقتول محمد عاشق چار بیٹوں کا باپ تھا جبکہ شوکت علی کا ایک ہی بیٹا ہے۔
شوکت علی اور محمد عاشق کے ہمراہ بس میں سفر کرنے والی عینی شاہد پروین بی بی نے بتایا کہ حملہ آوروں نے خواتین کو کچھ نہیں کہا لیکن تمام مردوں کے شناختی کارڈ چیک کیے اور پھر جن کے شناختی کارڈ پنجاب کے تھے یا وہ پنجابی زبان بولتے تھے انہیں نیچے اتارا گیا۔
پنجاب کے ضلع وہاڑی کے علاقے بورے والا سے تعلق رکھنے والے ذیشان مصطفیٰ اس بس میں سوار ہونے کے باوجود بچ گئے۔
انہوں نے بتایا کہ حملہ آوروں نے سب سے شناختی کارڈ مانگا۔ ’میرا شناختی کارڈ بھی چیک کیا لیکن شاید انگریزی میں ہونے کی وجہ سے وہ سمجھ نہیں سکے اور مجھے چھوڑ دیا۔‘

ذیشان کے مطابق ’میرے ساتھ میرا بھائی عدنان مصطفیٰ بھی اس بس میں پنجاب جا رہا تھا ۔ بھائی نے حملہ آوروں سے کہا کہ اس کے پاس شناخت کارڈ نہیں لیکن اس کے باوجود وہ اسے میرے سامنے بس سے اتار کر لے گئے اور پھر قتل کر دیا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’میں خوف کی وجہ سے کچھ نہیں کر سکا۔ میں نے پہلے بھی سنا تھا کہ پنجاب کے لوگوں کو قتل کرتے ہیں اس لیے میں خاموش ہی رہا کیونکہ اگر میں بولتا تو وہ مجھے بھی مار دیتے۔‘
ذیشان نے کہا کہ ڈرائیور اور باقی مسافروں کو انہوں نے کچھ نہیں کہا صرف پنجابی بولنے والوں کو اتارا اور پھر فائرنگ کی آواز آئی۔
مقامی صحافی حفیظ اللہ نے بتایا کہ جب وہ موقع پر پہنچے تو مسافروں کے چہروں پر خوف اور بے بسی عیاں تھی۔ ’وہ انتہائی ڈرے ہوئے تھے، پنجاب سے تعلق رکھنے والی خواتین مسافر اور بچے تو نیچے ہی نہیں اترے، میں جب بس کے اندر جا کر ویڈیو بنانے لگا تو وہ مزید خوفزدہ ہو گئے۔‘
ایک مسافر نے بتایا کہ حملہ آور ساری کارروائی کی ویڈیو بھی بنا رہے تھے اور اس دوران بار بار کہہ رہے تھے کہ ویڈیو بناؤ اور آگے بھیجو۔
عینی شاہدین کے مطابق حملہ آور مسافروں سے اردو میں بات کر رہے تھے لیکن آپس میں کوئی اور زبان بول رہے تھے۔
ایک اور مسافر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ شناختی کارڈ نہ ہونے پر مسلح افراد نے انہیں بھی نیچے اتارا لیکن انہوں نے یقین دلایا کہ وہ پنجاب سے تعلق نہیں رکھتے تو انہیں چھوڑ دیا۔

صحافی حفیظ اللہ کھیتران کے مطابق جائے وقوعہ کی طرف جاتے ہوئے راستے میں کالا قبرستان نامی مقام پر انہوں نے ایک پک اپ گاڑی دیکھی جو الٹ گئی تھی۔ ریسکیو اہلکاروں نے بتایا کہ پک اپ ڈرائیور کو حملہ آوروں نے رکنے کا اشارہ کیا لیکن انہوں نے گاڑی بھگائی جس پر حمہ آوروں نے فائرنگ کی۔
خود کو بچانے کی کوشش کے دوران تیز رفتاری کی وجہ سے پک اپ ڈرائیور سے گاڑی الٹ گئی تھی اور اس کا بازو ٹوٹ گیا۔
انہوں نے بتایا کہ مسافروں کے اتارنے کے بعد حملہ آوروں نے کو بس لے جانے کا کہا جس پر ڈرائیور نے فائرنگ والی جگہ سے پانچ چھ کلومیٹر آگے جا کر ایک لیویز چوکی کے قریب روک کر حکام کو واقعے کی اطلاع دی۔
اس کے بعد لیویز اور ایف سی نے دونوں جانب سے مختلف مقامات پر سڑک بند کرکے گاڑیوں کو روک لیا اور پھر صبح راستہ کھول کر گاڑیوں کو جانے کی اجازت دی گئی۔
فیصل آباد کے علاقے چک نمبر 273 رب علی وال کے رہائشی سفیان انصاری بھی اس حملے میں مارے گئے۔
ان کے رشتہ دار محمد عمر نے بتایا کہ سفیان غریب گھرانے سے تھے۔ ’وہ آٹھ بھائیوں میں سب سے بڑے اور گھر کے واحد کفیل تھے۔ ان کی منگنی طے ہونے والی تھی اس لیے وہ چھٹی لے کر گھر آ رہے تھے لیکن راستے میں ہی ظالموں نے انہیں شہید کر دیا۔ اب خوشیوں والے گھر میں ماتم ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ سفیان کی چار ماہ پہلے سٹیل کے ایک کارخانے میں ملازمت لگی تھی تو وہ بہت خوش تھا اور کہتا تھا کہ اب چھوٹے بھائیوں کی کفالت میں والد کا ہاتھ بٹائیں گے۔

محمد عمر کے مطابق ٹوٹی پھوٹی دیواروں، بغیر کھڑکیوں اور دروازوں کے کھنڈر نما گھر ان کی غربت کی درست تصویر پیش کرتا ہے۔
واقعہ میں بلوچستان کانسٹیبلری کے ریٹائرڈ ڈی ایس پی عاشق حسین بھی نشانہ بنے۔ ان کا آبائی تعلق پنجاب سے تھا تاہم ان کا خاندان طویل عرصہ سے بلوچستان میں آباد تھا۔
ڈی ایس پی عاشق حسین کے ایک دوست محمد عرفان نے بتایا کہ ’عاشق حسین انتہائی منکسر المزاج اور شریف انسان تھے۔ وہ روزانہ گڈ مارننگ کا میسج بھیجا کرتے تھے لیکن آج ان کا میسج نہیں آیا۔‘
خیال رہے کہ کوئٹہ کو ڈیرہ غازی خان سے ملانےوالی اس شاہراہ پر گزشتہ چھ ماہ کے دوران پنجاب سے تعلق رکھنے والے مسافروں کے قتل کا یہ دوسرا واقعہ ہے۔
چھ ماہ قبل 26 اگست کی رات کو بھی بارکھان سے متصل اسی سڑک پر ضلع موسیٰ خیل کی حدود میں 23 مسافروں کو قتل کیا گیا جن میں کم از کم 20 کا تعلق پنجاب سے تھا۔
اس سے پہلے گزشتہ سال اپریل میں بلوچستان کے ضلع نوشکی میں بھی ایران جانے کے خواہشمند پنجاب سے تعلق رکھنے والے نو مسافروں کو قتل کیا گیا۔
دو دہائیوں سے جاری شورش میں مسافر بسوں پر حملوں اور مسافروں کے قتل کے درجنوں واقعات پیش آچکے ہیں تاہم حالیہ برسوں میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے مسافروں کے قتل کے واقعات میں تیزی آئی ہے۔