Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’غزہ رِیوی اَیرا‘، ٹرمپ کی تجویز کے جواب میں مصر کا حماس کو سائیڈ لائن کرنے کا منصوبہ

غزہ سے متعلق مصر کا منصوبہ عرب لیگ کے اجلاس میں پیش کیے جانے کا امکان ہے۔ فوٹو: اے ایف پی
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ کو ’مشرق وسطیٰ کے رِیوی اَیرا‘ میں تبدیل کرنے کی تجویز کے متبادل کے طور پر مصر نے منصوبہ تیار کیا ہے جس کے تحت حماس کی جگہ عرب، مسلمان ممالک اور مغربی ریاستوں کے زیرِ کنٹرول عبوری اداروں کو لایا جائے گا۔
خبر رساں ادارے روئٹرز نے مصر کی جانب سے تیار کردہ مسودہ دیکھنے کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ آج منگل کو عرب لیگ کے سربراہی اجلاس میں پیش کیا جائے گا۔
غزہ کے حوالے سے ہونے والے مذاکرات میں ایک بڑا سوال اس کے مستقبل کے حوالے سے اٹھایا جاتا رہا ہے کہ جنگ کے مکمل خاتمے کے بعد علاقے کا انتظام چلانے کی ذمہ داری کس کو سونپی جائے گی۔
دوسری جانب حماس نے دیگر ریاستوں کی جانب سے فلسطینیوں پر کسی قسم کا منصوبہ مسلط کرنے کی مخالفت کی ہے۔
تاہم مصر کے منصوبے میں اُن اہم موضوعات پر روشنی نہیں ڈالی گئی جیسے کہ غزہ کی تعمیر نو کے اخراجات کون اٹھائے گا یا شہر کے انتظامی امور کیسے چلائیں جائیں گے، اور نہ ہی حماس جیسے طاقتور مسلح گروہ کو ایک طرف دھکیلنے سے متعلق تفصیلی پلان پیش کیا گیا ہے۔
مصری منصوبے کے مطابق غزہ میں حماس کے زیرِ انتظام حکومت کی جگہ غیر معینہ مدت کے لیے گورننس اسسٹنس مشن تشکیل دیا جائے گا جو انسانی امداد کی فراہمی اور جنگ زدہ علاقے کی تعمیر نو کا ذمہ دار ہو گا۔
مسودے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’حماس اگر بااختیار اور مسلح سیاسی عنصر کے طور پر قائم رہتے ہوئے  مقامی گورننس (کے اداروں کو) کنٹرول کرتا رہے گا تو غزہ کی تعمیر نو اور بحالی کے لیے بین الاقومی فنڈنگ نہیں فراہم کی جائے گی۔‘
مصر، اردن اور عرب خلیجی ریاستیں تقریباً ایک ماہ سے صدر ٹرمپ کے منصوبے کا متبادل حل نکالنے کے لیے سفارتی سطح پر کوشاں ہیں اور اس دوران کئی تجاویز پیش کی جا چکی ہیں تاہم مصر کے منصوبے پر غور کے لیے اتفاق کیا گیا ہے۔
فی الحال یہ واضح نہیں کہ کیا عرب رہنما مصر کے منصوبے کی تائید کریں گے۔

مصر کے منصوبے میں حماس کو سائیڈ لائن کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

غزہ کے حوالے سے مذاکرات میں شامل ایک عہدیدار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر منصوبے کا مسودہ روئٹرز کے ساتھ شیئر کیا ہے۔
منصوبے میں غزہ سے فلسطینیوں کی نقل مکانی کی امریکی تجویز کو مسترد کیا گیا ہے جس سے مصر اور اردن کے خیال میں ان کے لیے سکیورٹی خدشات پیدا ہو سکتے ہیں۔
جب وائٹ ہاؤس کی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان برائن ہیوز سے سوال کیا گیا کہ کیا امریکہ، مصر کے منصوبے کی حمایت کرے گا، اس پر ترجمان کا کہنا تھا کہ ’صدر ٹرمپ واضح کر چکے ہیں کہ حماس غزہ پر حکومت نہیں کر سکتا۔‘
’صدر ٹرمپ اگرچہ بعد از جنگ غزہ کے لیے اپنے وژن پر ثابت قدم ہیں لیکن وہ خطے میں عرب پارٹنرز کی تجاویز کا خیرمقدم کرتے ہیں۔‘
حماس کے سینیئر عہدیدار سمیع ابو زہری نے روئٹرز کو بتایا کہ گروپ کو مصر کی تجاویز کا علم نہیں ہے، غزہ کے مستقبل کا فیصلہ صرف فلسطینی ہی کر سکتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا، ’حماس ایسے منصوبوں یا کسی قسم کی غیر فلسطینی انتظامیہ کو مسلط کرنے کی تمام کوششوں، یا غزہ کی سرزمین پر غیر ملکی فوجوں کی موجودگی کو مسترد کرتا ہے۔‘
مصر کے تیار کردہ منصوبے میں غزہ میں انتخابات کے حوالے سے بھی کچھ نہیں کہا گیا۔ خیال رہے کہ سنہ 2007 سے  فلسطینی اسلامی گروپ حماس غزہ کی پٹی پر حکومت کر رہا ہے۔
دوسری جانب 19 جنوری کو ہونے والی جنگ بندی کا پہلا مرحلہ سنیچر کو اختتام پذیر ہو گیا تھا تاہم دوسرے مرحلے کے آغاز کے لیے معاہدہ طے پانے کا کوئی عندیہ نہیں دیا گیا۔

حماس نے غزہ پر غیر فلسطینی انتظامیہ کو مسلط کرنے کی کوششوں کو مسترد کیا ہے۔ فوٹو اے ایف پی

مسودے میں عرب ممالک پر مشتمل انٹرنیشل سٹیبلائزیشن فورس تشکیل دینے کی تجویز دی گئی ہے جو حماس کی جگہ پر سکیورٹی کا کردار ادا کرے گی اور بالآخر ایک نئی مقامی پولیس فورس تشکیل دی جائے گی۔
اس کے علاوہ سٹیئرنگ بورڈ کی رہنمائی اور نگرانی میں سکیورٹی اور گورننس کے ادارے بنائے جائیں گے۔ بورڈ میں عرب ممالک، اسلامی تعاون تنظیم، امریکہ، برطانیہ، یورپی یونین اور دیگر ممالک کے نمائندے شامل ہوں گے۔
منصوبے میں غزہ کے مستقبل سے متعلق فلسطینی اتھارٹی کے کردار کا ذکر نہیں کیا گیا جو عوامی رائے میں غزہ اور مغربی کنارے کے فلسطینیوں میں معمولی حمایت رکھتی ہے۔

 

شیئر: