سب کا مشترکہ اعتراض تو یہی ہے کی عورت مارچ فحاشی اور بے حیائی کے زمرے میں آتا ہے (فوٹو: روئٹرز)
جس طرح فلموں اور ڈراموں میں پہلے ہی ٹرگر وارننگ دے دی جاتی ہے کہ کمزور دل کے حضرات اور بچے دیکھنے سے گریز کریں آج شاید ہمیں بھی یہی کرنا پڑے گا۔
خدا کا کرم ہے کہ دو چار لوگ پڑھ ہی لیتے ہیں اور باوجود اس کے کہ ہم اس بات پر بہت اتراتے ہیں کہ ہم وہی لکھتے ہیں جو من میں آئے، سچ یہ بھی ہے کہ بسا اوقات لکھنے کے بعد ڈر ہی لگا رہتا ہے کہ خدا جانے کیسا رد عمل آئے اور خدا گواہ ہے کہ جب جب ڈرے، ضرور کچھ نہ کچھ عذاب ہی آیا۔
تو آج عورت مارچ کے بارے میں کچھ بات ہو جائے۔ کیوں ہو جائے؟ ارے، بھئی کیوں نہ ہو جائے؟ سنا ہے پاکستان کی کئی عورتیں آٹھ مارچ کو سر پر کفن باندھ کر مشعلیں اٹھانے کو تیار کھڑی ہیں۔
آٹھ مارچ میں تو ابھی سات دن پڑے ہیں لیکن یہاں واویلا ابھی سے شروع ہے۔ سوشل میڈیا بھی اس معاملے میں اس قدر سرگرم ہے کہ گویا کوئی میدان جنگ ہو۔
ایک ٹویٹر ٹرینڈ ایسا بھی ہے جس میں عورت مارچ میں حصہ لینے والی کئی عورتیں اپنے ذاتی تجربات بیان کرتے ہوئے بتا رہی ہیں کہ یہ مارچ کیوں ضروری ہے۔
ان میں سے کچھ ٹویٹس تو ایسی ہیں کہ ہم جیسے چڑیا دل کا تو یوں ہی دم نکل جائے۔
لاہور کے ایک پوش علاقے میں گھر کی چار دیواری میں رہنے والی بہو پر سسر کی میلی نظر سے لے کر سوات میں غیرت کے نام پر قتل، ماؤں کو اپنے خوابوں کا قتل کرتے دیکھنے والی بیٹیوں سے لے کر ونی جیسی تاریک رسم میں فنا ہو جانے والی لڑکیوں تک سب کا ذکر ہے۔
کچھ ٹویٹس کا ذکر کیا جاسکتا ہے لیکن کچھ پر محض کانپا جا سکتا ہے۔
واویلا مچانے والی یہ عورتیں نہ صرف اپنے صدیوں سے صلب شدہ حقوق کا تقاضہ کر رہی ہیں بلکہ سوشل میڈیا پر موجود سینکڑوں مردوں کی ہذیاں سرائی کا شکار بھی بن رہی ہیں۔
ابھی کچھ دیر پہلے تو ایک صاحب کی یہ ٹویٹ بھی نظروں سے گزری جس میں ان کا کہنا تھا کہ عورت مارچ میں اٹھائے جانے والے پلے کارڈز سے وہ ہراساں ہوتے ہیں۔
ایک صاحب نے تو قانون کا سہارا لیا اور جھٹ لاہور ہائی کورٹ میں پٹیشن ہی دائر کر دی کہ اس ’بے حیائی‘ کو روکا جائے۔ ایک اور صاحب نے عورت مارچ کو کورونا وائرس سے بھی زیادہ خطرناک قرار دیا۔
یعنی اگر ان ہی مردوں کی مائیں انہیں عورت مارچ کے نام سے ڈرانا شروع کر دیں تو یہ جھٹ دبک کر سو جائیں گے۔
ویسے سب کا مشترکہ اعتراض تو یہی ہے کی عورت مارچ فحاشی اور بے حیائی کے زمرے میں آتا ہے۔
شروع شروع میں تو ہمیں یہ اچنبھا ہوا کہ اپنے حقوق کی آواز اٹھانا بے حیائی کے زمرے میں کیسے آیا۔ یوں تو ان عورتوں کے پاس کئی وجوہات ہیں، زمانے سے ہوتی آئی ناانصافیوں کے ثبوت اور گواہ ہیں لیکن ان کے پلے کارڈز سے مردوں کے دل کو اس قدر ٹھیس کیوں پہنچ رہی ہے؟
انہیں کسی بھی پسے ہوئے طبقے کا اپنے حقوق کے لیے کھڑا ہونا فحاشی کیوں لگ رہا ہے؟ انہیں یہ کیوں لگ رہا ہے کہ یہ پلے کارڈز اچھے بھلے سجے سنورے معاشرے میں اخلاقی بگاڑ کا باعث بن رہے ہیں؟
ہمیں اس بات کا قوی یقین تو نہیں لیکن یہ امکان بہرحال ضرور مضبوط دکھائی دیتا ہے کہ اصل مسئلہ عورت کی آزادی ہے۔ عورت کی خود مختاری ہی بے حیائی ہے۔
جب تک عورت دبی رہے پسی رہے سب کو قبول ہے۔ ماں ہے، بیٹی ہے۔ بہن ہے۔ جس دن اپنے حقوق کے لیے اٹھ کھڑی ہو اور مرد کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر صدیوں سے ہونے والی نا انصافیوں کا حساب لینے لگے تو بے حیا ہے۔
اب ہمیں بھی عورت مارچ سے اختلاف کی وجہ سمجھ آنے لگی ہے۔
مردوں کو معاشرے میں ہونے والا کسی قسم کا بگاڑ قبول نہیں۔ وہ نہیں چاہتے کہ ہماری پاک اقدار پر کسی بھی عورت کے سوال اٹھانے سے کوئی چھینٹ آئے۔ وہ نہیں چاہتے کہ آپ یوں سڑکوں پر نکل کھڑی ہوں۔
وہ نہیں چاہتے کہ کل کو آپ اپنے حقوق مانگ کر اس عظیم الشان معاشرے کی دھجیاں اڑا دیں۔ جو کہہ رہے ہیں آپ کے بھلے کے لیے ہی کہہ رہے ہیں۔ معاشرہ اور اس کی ہمالیہ سے اونچی اقدار ہیں تو ہم سب ہیں۔ آخر مسئلہ کیا ہے، لیڈیز؟