بہت سے مسلمان تارکین وطن رمضان کا مقدس مہینہ اپنے گھروں اور خاندانوں سے دور ہونے کے باوجود سعودی عرب میں گزارنا زیادہ پسند کرتے ہیں۔
عرب نیوز کے مطابق دنیا کے کسی بھی ملک سے پہلی بار سعودی عرب آنے والے ہر ایک کے لیے یہ منفرد اور نیا تجربہ رہا ہے، آپ جہاں بھی جائیں رمضان کا خاص انداز محسوس کر سکتے ہیں۔
مزید پڑھیں
-
سعودی عرب میں قدیم روایتی رمضان بازار کی رونقیں
Node ID: 753636
-
جدہ البلد میں رمضان کی رونقیں عروج پر، بازاروں کی مسحورکن آرائش
Node ID: 886645
-
دو دہائیوں سے زیادہ عرصے سے ریاض میں مقیم انڈین گھریلو خاتون نفیسہ عثمانی ذاتی تجربے کی بنا پر کہتی ہیں جو پردیسی رمضان کا مقدس مہینہ یہاں گزار رہے ہیں، روحانی سکون اور تقویٰ کے لحاظ سے خوش نصیب ہیں۔
نفیسہ عثمانی نے مزید کہا ’آپ جہاں بھی جائیں رمضان کا منفرد انداز محسوس کر سکتے ہیں، راتوں میں لوگوں کی چہل پہل ، شہر دن کے وقت کچھ مدھم لگتا ہے لیکن رات میں زندگی سے بھرپور ہوتا ہے۔
رمضان گزارنے اور اس کا حقیقی جوش و خروش محسوس کرنے کے لیے سعودی عرب سے بہتر کوئی جگہ نہیں۔ مساجد میں تراویح کے اجتماع شاندار ہیں۔
سعودی عرب میں رمضان کا مہینہ بڑی عقیدت کے ساتھ منایا جاتا ہے، یہاں رہتے ہوئے ہر مسلمان کو عمرے کی ادائیگی اور مسجد نبوی میں عبادت کی سعادت کا موقع مل جاتا ہے۔

لبنانی خاتون فرح فؤاد اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہتی ہیں ’ رمضان میں سعودی عرب کا ماحول انتہائی پُرمسرت ہوتا ہے، مساجد کی رونقیں، سڑکوں کی سجاوٹ اس مقدس مہینے کا احساس دلاتی ہے۔
ریاض میں ایک اور انڈین گھریلو خاتون عفت آبرو کا کہنا ہے’ یہاں رمضان گزارنا ایک شاندار تجربہ ہے۔ گلیوں میں رونق رہتی ہے، مارکیٹس سحری تک کھلی رہتی ہیں اور لوگ عید کی تیاریوں کے لیے خریداری کرتے نظر آتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا ہوٹل خصوصی رمضان خیمے لگاتے ہیں، جہاں لذیذ پکوان اور دلکش سجاوٹ کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ رمضان صرف ایک مذہبی عبادت کا نام نہیں، بلکہ یہ ایک ثقافتی مظہر بھی ہے، جس کا اظہار روحانی اعمال اور سماجی میل جول میں ہوتا ہے۔

پاکستانی مصنفہ امبرین فائز گذشتہ 27 سال سے ینبع میں مقیم ہیں، انہوں نے اپنے تجربے کو شیئر کرتے ہوئے بتایا ’پہلی بار 1998 میں ریاض میں رمضان کی تقریبات دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوئی۔
مملکت میں مقیم پاکستانی خواتین رمضان کی آمد کا خوشی سے انتظار کرتی ہیں اور مقدس مہینے کا لطف اٹھانے کے لیے وطن جانے کی بجائے یہاں رکنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
