قنوتِ نازلہ پڑھنے کے ساتھ ساتھ توبہ و استغفار کی کثرت، ظلم و زیادتی اور فسق و فجور اور ہر قسم کے گناہوں سے پرہیز کرنا چاہیے
* * * مولانا ندیم احمد انصاری۔ممبئی* * *
مسلمان اس وقت جن حالات سے دو چار ہیں، حلب و شام میں خصوصاً اور پورے عالم میں عموماً، ضروری معلوم ہوا کہ ایسے وقت میں نبویؐ علاج کی رہنمائی کی جائے جس میں اصل تو گناہوں سے توبہ و تعلق مع اللہ ہے اور من جملہ ان کے قنوتِ نازلہ کا اہمتام بھی ہے، جس کی رسول اللہ نے اپنی امت کو تعلیم دی ہے۔ آقاے دو جہاں، رحمۃ للعالمین اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا اسوۂ حسنہ یہ ہے کہ جب مسلمانوں پر کوئی عام اور عالم گیر مصیبت نازل ہو، مثلاً غیر مسلم حکومتوں کی طرف سے حملہ اور تشدد ہونے لگے اور دنیا کے سر پر خوف ناک جنگ چھا جائے یا دیگر بلاؤں اور بربادیوں اور ہلاکت خیزیوں میں مبتلا ہو جائے تو ایسی مصیبت کے دفعیے کے لئے فرض نمازوں میں قنوتِ نازلہ پڑھتے تھے اور جب تک وہ مصیبت دفع نہ ہو جائے، یہ عمل برابر جاری رہتا تھا اور اس کا جواز عموماً جمہور ائمہ اور خصوصاً حنفیہ کے نزدیک باقی ہے اور منسوخ نہیں بلکہ جب کوئی عام مصیبت پیش آئے تومصیبت کے زمانے تک قنوتِ نازلہ پڑھنا جائز ہے، لہٰذا مسلمانوں کو ضرورت کے وقت اس سنت پر عمل کرناچاہیے اور قنوتِ نازلہ پڑھنے کے ساتھ ساتھ توبہ و استغفار کی کثرت، ظلم و زیادتی اور فسق و فجور اور ہر قسم کے گناہوں سے پرہیز کرنا چاہیے۔
مسلمان حقوق العباد کی ادائیگی کا پورا پورا لحاظ رکھیں۔آپس میں محبت و ہمدردی اور اتفاق پیدا کریں، لہو و لعب سے پرہیز کریں اور اپنے خالق بزرگ و برتر کی بارگاہ میں گریہ و زاری کے ساتھ مناجات و دعا کریں۔غرض یہ کہ ہر قسم کے اوامر و اخلاقِ حسنہ پر عمل کی کوشش کریں اور ہر قسم کی منکرات و برائی سے بچیں۔ اللہ تعالیٰ کی رحمتِ کاملہ سے امید ہے کہ وہ اپنے بندوں کی دعائیں قبول اور ان کو اس گردابِ بلاسے نجات و خلاصی عطا فرمائے گا(عمدۃ الفقہ )۔ اس سلسلے میںچند احادیث پیش خدمت ہیں۔ « حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی نے ایک مہینے تک نمازِ فجر میں قنوت پڑھی، جس میں آپ نے عرب کے بعض قبیلوں ’’رِعْل، ذکوان، عُصَیَّہ اور بنی لِحیان‘‘ کیخلاف بددعا فرمائی(بخاری)۔ « حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت میں ہے کہ رسول اللہنے ایک ماہ تک قنوتِ نازلہ پڑھی اور اسکے بعد چھوڑدی (ابوداؤد )۔
« حضرت انس بن مالکؓسے دریافت کیا گیاکہ کیا رسول اللہ نے صبح کی نماز میں قنوتِ نازلہ پڑھی ہے ؟ انھوں نے فرمایا: ہاں۔ پھر پوچھا گیا کہ رکوع سے پہلے پڑھی ہے یا رکوع کے بعد ؟ فرمایا: رکوع کے بعد (ابوداؤد)۔ 3قنوت: لفظ قنوت کے معنیٰ ہیں دعا، اور قنوت3 ہیں: « ایک وہ جو وتر میں پڑھی جاتی ہے۔ « دوسری قنوتِ نازلہ ہے، یعنی وہ قنوت جو دشمن کی طرف سے آنے والی اُفتاد کے وقت میں پڑھی جاتی ہے۔یہ قنوت اجتماعی ہے۔ جب مسلمانوں کو دشمن کی طرف سے کسی آفت کا سامنا ہو تو انھیں قنوتِ نازلہ پڑھنی چاہیے۔ امامِ اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا مشہور قول یہ ہے کہ یہ قنوت صرف نمازِ فجر کی دوسری رکعت کے قومے میں پڑھی جائے اور دوسرا قول یہ ہے کہ تمام جہری نمازوں میں پڑھ سکتے ہیں اور امام شافعیؒکے نزدیک پانچوں نمازوں میں قنوتِ نازلہ پڑھ سکتے ہیں۔
« تیسری قنوت’’ قنوتِ راتبہ‘‘ یعنی ہمیشہ پڑھی جانے والی قنوت۔ اس کے صرف امام مالکؒ اور امام شافعیؒ قائل ہیں۔ امام مالک رحمہ اللہ اس کو مستحب گر دانتے ہیں اور امام شافعی رحمہ اللہ سنت۔باقی 2 امام اس قنوت کو تسلیم نہیں کرتے اور یہ قنوت صرف فجر کی نماز میں دوسری رکعت کے قومے میں پڑھتے ہیں(تحفۃ الالمعی)۔ نیز درست یہ ہے کہ قنوتِ نازلہ جنگ کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ جب بھی مسلمانوں پر کوئی مصیبت آجائے یا فتنے میں مبتلا ہوں تو اسے پڑھا جائے(خیر الفتاویٰ)۔ جب طاعون یا ہیضے وغیرہ کی وبا پھیل جائے جس سے لوگ مضطرب اور پریشان ہوں تو قنوتِ نازلہ پڑھی جا سکتی ہے تاآں کہ اللہ تعالیٰ اس مصیبت کو دور کر دے(فتاویٰ رحیمیہ )۔ قنوتِ نازلہ سب کے لئے: قنوتِ نازلہ کا حکم عام ہے۔مرد، عورت، امام، منفرد ہر ایک کو شامل ہے۔ جماعت کی قید اور مَردوں کی تخصیص اور منفرد یا عورتوں کے لئے ممانعت کی صریح اور صحیح دلیل منقول نہیں۔ ’’ قَنَتَ الامامُ‘‘ اس کے لئے کامل دلیل نہیں (حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ صاحبؒ کابھی یہی نظریہ ہے)، لہٰذا منفرد اور عورتیں اپنی نماز میں دعائے قنوت پڑھ سکتی ہیں مگر عورتیں زور سے نہ پڑھیں (فتاویٰ رحیمیہ )۔
قنوتِ نازلہ پڑھنے کا طریقہ: اس لئے عام مصیبت کے وقت بالاتفاق نماز ِ فجرکی جماعت میں قنوتِ نازلہ پڑھنا مسنون و مستحب ہے جس میں نہ قنوتِ وتر کی طرح ہاتھ اٹھائیں نہ تکبیر کہیں(جواہر الفقہ) ،یعنی قنوتِ نازلہ پڑھنے کا طریقہ یہ ہے کہ نمازِ فجر کی دوسری رکعت میں رکوع کے بعد سَمِعَ اللّٰہ لِمَنْ حَمِدَہ کہہ کر امام قومہ کرے،اور اسی حالت میں دعاے قنوت پڑھے اور جہاں جہاں وہ ٹھہرے، وہاں سارے مقتدی آہستہ آہستہ آمین کہتے رہیں،پھر دعا سے فارغ ہو کر اللہ اکبرکہتے ہوئے سجدے میں چلے جائیں اور بقیہ نماز امام کی اقتدا میں معمول کے مطابق ادا کریں۔ ’’عمدۃ الفقہ‘‘ میں ہے کہ بہ اعتبارِ دلیل کے قوی یہ ہے کہ(قنوتِ نازلہ)رکوع کے بعد پڑھی جائے۔یہی اولیٰ اور مختار ہے۔
دعا سے فارغ ہو کر اللہ اکبر کہہ کر سجدے میں جائیں۔ اگر یہ دعامقتدیوں کو یاد ہوتو بہتر ہے کہ امام بھی آہستہ پڑھے اور سب مقتدی بھی آہستہ پڑھیں اور اگر مقتدیوں کو یاد نہ ہو، جیسا کہ اکثر تجربہ اس کا شاہد ہے تو بہتر یہ ہے کہ امام زور سے پڑھے اور سب مقتدی آہستہ آہستہ آمین کہتے رہیں(عمدۃ الفقہ)۔ قنوتِ نازلہ: قنوتِ نازلہ مختلف روایات میں قدرے مختلف الفاظ کے ساتھ وارد ہوئی ہے، ایک جامع دعا یہ ہے:
اللّٰہُمَّ اھدِنَا فِیْ مَنْ ھَدَیْتَ، وَعَافِنَا فِیْ مَنْ عَافَیْتَ، وَتَوَلَّنَا فِیْ مَنْ تَوَلَّیَتَ، وَبَارِکْ لَنَا فِیْ مَاعَاطَیْتَ، وَقِنَاشَرَّ مَا قَضَیْتَ، فَاِنَّکَ تَقْضِیْ وَلَا یُقْضیٰ عَلَیْکَ، اِنَّہٗ لَا یَعِزُّمَنْ عَادَیْتَ،وَ لَا یَذِلُّ مَنْ وَّالَیْتَ، تَبَارَکْتَ رَبَّناوَتَعالَیْتَ، اَللّٰہُمَّ اغْفِرْلَنَا وَلِلْمُؤمِنِیْنَ وَلِلْمْؤمِنَاتِ وَالْمُسْلِمِیْنَ وَالْمُسْلِمَاتِ، وَ اَصْلِحْھُمْ وَ اصْلِحْ ذَاتَ بَیْنِہِمْ، وَ اَلِّفْ بَیْنَ قُلُوْبِھِمْ وَاجْعَلْ فِیْ قُلُوْبِھِمُ الْاِیْمَانَ وَالْحِکْمَۃََ، وَثَبِّتْھُمْ عَلیٰ مِلَّۃِ رَسُوْلِکَ، وَاَوْزِعْھُمْ اَن یَّشْکُرُوا نِعْمَتَکَ الَّتِیْ اَنعَمْتَ عَلَیْھِمْ، وَاَنْ یُوْفُوْا بِعَھْدِکَ الَّذِیْ عَاھَدتَّھُمْ عَلَیْہِ،وَانْصُرْھُمْ عَلٰی عَدُوِّکَ وَعَدُوِّھِمْ، اِلٰہَ الْحَقِّ، سُبْحَانَکَ، لَا اِلٰہَ غَیْرُک،َ اَللّٰھُمَّ انْصُرْ عَسَاکِرَ الْمُسْلِمِینَ، وَالْعَنِ الْکَفَرَۃَ وَالْمُشْرِکِیْنَ، اَلَّذِیْنَ یُکَذِّبُوْنَ رُسُلَکَ، وَیُقَاتِلُوْنَ اَوْلِیَائَکََ، اَللّٰھُمَّ خَالِفْ بَیَنَ کَلِمَتِھِمْ، وَفَرِّقْ جَمْعَھُمْ، وَشَتِّتْ شَمْلَھُمْ، وَزَلْزِلْ اَقْدَامَھِمْ، وَاَلْقِ فِیْ قُلُوْبِھِمْ الرَّعْبَ، وَخُذْھُمْ اَخْذَ عَزِیْزٍ مُّقْتَدِرٍ، وَاَنْزِلْ بِھِمْ بَاْسَکَ الَّذیْ لَا تَرُدُّہ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِیْنَ۔