Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’’بیوہ ‘‘ بے امان ، جسکی گود اُجڑ ے وہ ’’ویران ہستی‘‘

ممتا ایسی گود ہے جو اپنی اولاد کے سوا کسی بھی متنفس کو اس’’ شہرِ اماں کی شہریت‘‘ نہیں دے سکتی
* * * * ابوغانیہ۔جدہ* * * *
مجھے فیس بک، ٹویٹر، لنکڈاِن یا ایسی ہی کسی بھی سماجی ویب سائٹ میں اکائونٹ بنانے ، اس کے ذریعے’’ عمرانی ابلاغ‘‘ پر اپنے خیالات مسلط کرنے اور پھر ان پر لوگوں کی پسند و ناپسند ، تعریف و تضحیک یا تردید و تنقید کا انتظار کرنے کی علت نہ صرف وقت کا ضیاع بلکہ مقصدِ حیات سے انحراف محسوس ہوتی ہے ۔ اس لئے میں ان جھمیلوں میں براہ راست دخل دینے سے گریز کرتا ہوں تاہم اگر کوئی دوست مجھے اپنی ’’ای میل ‘‘ یعنی ’’ڈاک برقی ‘‘میں ہی اپنی فیس بُک یعنی ’’کتابِ عِذار‘‘کا لنک یعنی ’’رشتہ‘‘بھیج دے تو میں اسے دیکھنے کیلئے متجسس ہوتا ہوں اور اسی دوران کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ اُس کی ’’کتابِ عذار‘‘پر کوئی واضح تحریر میری توجہ اپنی جانب مبذول کر لیتی ہے۔
آج بھی ایسا ہی ہوا۔ میں اپنے دوست کی جانب سے ارسال کردہ برقی ڈاک پڑھ رہا تھاجس میں ایک نکتے کی وضاحت کے لئے اس نے اپنی ’’کتابِ عذار‘‘ کا رشتہ بھی بھیج رکھاتھا۔ میں نے اسے کھولا تو سامنے ایک تحریر نظر نواز ہوئی جسے پڑھتے ہی مجھے ایسا لگا جیسے میری بصارت پر اوس پڑ گئی ، جیسے’’لیپ ٹاپ‘‘کا پردۂ سیمیں دھندلا گیا ، جیسے میرے ’’چاہِ چشم‘‘ سے آبِ گرم کے چشمے جاری ہو گئے ۔ میرے احساسات پر لرزہ طاری ہو گیا،ذہن میں درآنے والی خوفناک کالی آندھی نے میرے خیالات کے تمام تار وپود بکھیر دیئے۔ مجھ سے رہا نہ گیا، میں نے ’’لیپ ٹاپ‘‘کی’’ جبری بندش‘‘ کے بعدجذبات کی ترقیم کے لئے قلم تھاما ، قرطاس نے اپنی بانہیں پھیلائیں اور میرے لفظوں کو اپنے وجود میں سمیٹنا شروع کر دیا۔
انجام ِ کار جو تحریر نمودار ہوئی وہ پیش کی جا رہی ہے: ’’کتابِ عذار‘‘ پرسامنے آنے والی تحریر ا یک سوال تھی جس میں کہا گیا تھا کہ جس عورت کا شوہر انتقال کر جائے اُسے بیوہ کہا جاتا ہے، جس مرد کی بیوی انتقال کر جائے، لغتِ اُردو اسے ’’رنڈوا‘‘ قرار دیتی ہے، جن بچوں کے ماں باپ کا سایہ سر سے اٹھ جائے وہ یتیم مسکین قرار پاتے ہیں مگر جن والدین کے بچے انہیں دنیا میں چھوڑ کر چلے جاتے ہیں، ان بے یار و مدد گار ، نحیف و نزار، زندگی سے بے زار ہستیوں کو کیا کہا جائے گا۔ ان کے لئے لغتِ اُردو میں کوئی اصطلاح کیوں نہیں ہے؟ ‘‘ نجانے ایساکیا ہواکہ یہ تحریر نظر سے گزرتے ہی میرے ذہن و دل میں ایک ہلچل سی مچ گئی ، اس لئے نہیں کہ اس کا کوئی جواب موجود نہیں تھا بلکہ اس لئے کہ سوال کرنے والے کو اس حقیقت کا ادراک کیوں نہیں ہو سکا کہ:
٭٭جب کسی خاتون کا شوہر اسے دنیا میں تنہا چھوڑ کر چلا جاتا ہے تو اُسے صرف 4مہینے اور 10دن تک انتظار کرنا پڑتا ہے، اس کے بعد وہ کسی اور ہستی سے نکاح کر کے اس کی زوجیت میں خوش گوار زندگی بسر کرنے کے خواب دیکھنے لگتی ہے اورپھر ایک وقت ایسا آتا ہے جب اس کے خواب حقیقت بن کرسامنے آجاتے ہیں۔ پھر وہ اپنے متوفی ، سابقہ شوہرکی باتوں اور اس کی یادوں کو اپنی کتابِ حیات سے کسی حرفِ غلط کی طرح مٹا کر نئے شوہر کے اطوار، گفتار اور کردار کو اپنی توجہ کا مرکز بنا لیتی ہے۔ وہ اپنے آپ کو سمجھاتی ہے کہ بیوی وہ ہے جو اپنے شوہر کی فرمانبردار ہو، وفاشعار ہو، خدمت گزار ہو۔ جو صرف اور صرف اپنے شوہر کی ہو کر رہے اور اسے ہی اپنی محبت کا محور کہے، اپنے ماضی کو بھلا دے، یادوں کومٹادے۔ یہی نہیں بلکہ وہ اپنے ’’نئے شوہر‘‘ کو یہ یقین دلانے سے بھی گریز نہیں کرتی کہ آپ میرے سابق شوہر کے مقابلے میں کہیں بہتر انسان ہیں، جب سے آپ کا ساتھ میسر آیا ہے ، میں سب کچھ بھول گئی ہوں۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ میری حقیقی زندگی تو آپ کے ساتھ شروع ہوئی ہے، پہلے جو تھا وہ محض خواب تھا۔
٭٭ایسا مرد جس کی بیوی کا انتقال ہوگیا ہو،اس رنڈوے کو کسی بیوہ کے مقابلے میں کہیں زیادہ سہولتیں میسر ہوتی ہیں۔ ایک بات تو یہ کہ رنڈوے کے لئے عدت جیسی کوئی پابندی نہیں ہوتی۔ اسی لئے اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ شوہر نامدار اپنی متوفیہ بیگم کی نماز جنازہ پڑھانے والے مولوی صاحب کو ہی دعوت دے دیتے ہیں کہ محترم ! فلاں وقت میرا نکاح پڑھانے کے لئے گھر تشریف لے آئیے گا۔اس حوالے سے بعض مرد حضرات رنڈوے کو ’’رشک‘‘ کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اورحسد کی آگ میں جلتے ہوئے بھڑاس یوں نکالتے ہیں کہ ’’اُس کھوسٹ کو دیکھئے، ابھی پہلی بیوی کا کفن بھی میلا نہیں ہوا تھا کہ دوسری کرکے بیٹھ گئے۔اس حوالے سے وہ مختلف ’’دلائل‘‘ پیش کرتا ہے۔ ان میں سب سے طاقتور دلیل یہ ہوتی ہے کہ میں نے اپنی پہلی بیوی کی جدائی کا غم غلط کرنے کے لئے فوری طور پر دوسری شادی کی ہے۔ اگر میں ایسا نہ کرتا تو پہلی کو یاد کر کر کے شاید جان سے ہی چلا جاتا۔ رنڈوے کو ایک اور سہولت یہ ہوتی ہے کہ اس کے لئے دوسری بیوی کے ساتھ وفا شعاری جیسے کسی پیمان کا پابند ہونا بھی ضروری نہیںسمجھا جاتاتاہم اس سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ اچھے اخلاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے دوسری بیوی سے بھی وفا کرے گا۔ بہر حال اگر اس کے مالی حالات اجازت دیتے ہوں تو وہ دوسری کے بعد تیسری اور چوتھی بیوی بھی لا سکتا ہے۔
٭٭یتیم مسکین ، وہ کم سن ہستیاں ہوتی ہیں جن کے سر سے والدین کا سایہ چھن جاتا ہے۔ بچوں کے خواہ والد کا انتقال ہو، والدہ کا ہو یا دونوں کا، انہیں ظلم و ستم کا نشانہ بہر حال بننا پڑتا ہے۔ اگر بچوں کی ماں کا انتقال ہوجائے تو اکثر ابو ایسے ہوتے ہیں جو بچوںکو خوب سمجھاتے ہیں، ان کی مرضی معلوم کرتے ہیں اور بچوں کی دیکھ بھال کے ’’بہانے‘‘ جلد از جلد نئی دلہن گھر میں لانے کی کوششوں میں جُت جاتے ہیں۔پھر جب دلہن گھرمیں آتی ہے تو اسے بچوں سے وحشت ہونے لگتی ہے ۔ وہ ان پر طرح طرح کے ظلم کرتی ہے، اپنے شوہر سے ان کی جھوٹی سچی شکایات کرتی ہے ، وہ بھی اپنی دلہن کے کہے میں آ کر بچوںکو مارنا پیٹنا شروع کر دیتا ہے ۔ اسی طرح اگر بچوں کا باپ فوت ہو جائے توبیوہ بذاتِ خود یا اس کے گھر والے اس کی دوسری شادی کا انتظام کر دیتے ہیں۔اس بیوہ کے نئے شوہر کو اپنی بیوی کے پہلے شوہر کی اولاد ایک آنکھ نہیں بھاتی اور وہ ان پر ظلم ڈھانا شروع کر دیتا ہے ۔ یہ دیکھ کر ماں اپنے بچوں کو نانا نانی کے ہاں چھوڑ دیتی ہے جہاں ماموں، ممانیاںان سے نوکروں جیسا سلوک کرتی ہیں۔ یوں بچوں کا جینا دوبھر ہو جاتا ہے۔
٭٭اب سوال یہ ہے کہ وہ والدین جن کا بیٹا یا بیٹی فوت ہوجائے، جن کی گود اُجڑ جائے یا اُجاڑ دی جائے ،جن سے بڑھاپے کا سہارا چھن جائے یا چھین لیاجائے، جن سے زندگی بھر کی مشقت و محنت کا صلہ چھن جائے یا چھین لیاجائے ،جن کی زندگی کا سبب ہی معدوم ہوجائے یا معدوم کر دیاجائے،ان کے لئے لغت میں کوئی اصطلاح اس لئے نہیں کیونکہ ممتا ایسی گود ہے جو اپنی اولاد کے سوا روئے زمین کے کسی بھی متنفس کو اس’’ شہرِ اماں کی شہریت‘‘ دینے کا تصور بھی نہیں کر سکتی ۔دوسرے لفظوں میں ’’مہدِ مادر وہ دیس ہے جہاں دہری شہریت کا کوئی قانون نہیں۔‘‘ممتا ایک مرتبہ ویران ہوجائے تو بے نام ہو جاتی ہے ، اسی لئے اس کا کوئی نام نہیں ہوتا۔ بہر حال اصطلاحاً یوں کہا جا سکتا ہے کہ جس مرد کی بیوی دنیا سے چلی جائے وہ ’’بے مکان‘‘ ہستی، جس خاتون کا شوہر دنیا سے چلا جائے وہ ’’بے امان‘‘ ہستی ، جس کے والدین فوت ہو جائیں وہ ’’بے سائبان‘‘ ہستی اور جن والدین کی اولاد دنیا سے چلی جائے انہیں ’’ویران‘‘ ہستی کہا جا سکتا ہے کیونکہ ایسے مظلوم اور بے چارے والدین کی زندگیوں میں صرف سانس رہ جاتی ہے، کوئی آس باقی نہیں رہتی۔یہ ایسے زن و شو ہوتے ہیں جن کے چمنستانِ حیات سے بہاریں روٹھ جاتی ہیں، خزائیں ان کے آنگن میں ہمیشہ کے لئے بسیرہ کر لیتی ہیں۔

شیئر: