نئی دہلی-----مرکز کی بی جے پی حکومت نے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے اقلیتی کردار پر عدالت سے اپنے پہلے موقف کو واپس لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اب مودی حکومت عدالت میں نیا حلف نامہ داخل کریگی کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ ایک اقلیتی تعلیمی ادارہ نہیں۔ وزارت فروغ انسانی وسائل کی طرف سے یہ حلف نامہ دہلی ہائیکورٹ میں زیر سماعت عرضیوں سے متعلق داخل کیا جائے گا۔ 22 فروری 2011 ء کو قومی اقلیتی تعلیمی کمیشن کی ہدایت کی تائید کرتے ہوئے مرکزی حکومت نے جامعہ ملیہ اسلامیہ کو ایک مذہبی اقلیتی ادارہ ہونے کا اعلان کیا تھا۔ موجودہ مودی حکومت کے مطابق یہ حکومت کی غلطی تھی ۔ مذکورہ وزارت دہلی ہائی کورٹ کو یہ بھی بتائیگی کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کا مقصد کبھی بھی اقلیتی درجہ رکھنے کا نہیں تھا کیونکہ اسے پارلیمنٹ کے ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے قائم کیاگیا تھا۔ علاوہ ازیں اسے مرکزی حکومت کی طرف سے باقاعدہ فنڈز جاری کئے جاتے ہیں۔ گزشتہ سال جب وزارت فروغ انسانی وسائل کی ذمہ داری اسمرتی ایرانی کے پاس تھی تب اٹارنی جنرل نے عدالت میں اپنا موقف تبدیل کرنے کا مشورہ وزارت کو دیا تھا اور رائے دی تھی کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ ایک اقلیتی ادارہ نہیں۔ اُس وقت اٹارنی جنرل کی ذمہ داری مکل روہتگی انجام دے رہے تھے۔ انہوں نے کہا تھا کہ حکومت 1968 ء کے عزیز پاشا بنام حکومت ہند معاملے میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر دارومدار کرتی ہے تاکہ وہ اپنے موقف میں تبدیلی کرسکے۔ عزیز پاشا معاملے میں سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اقلیتی یونیورسٹی نہیں کیونکہ یہ برطانوی پارلیمنٹ کے ذریعے قائم کی گئی تھی۔ اسے مسلمانوں نے قائم نہیں کیا تھا۔ اسمرتی ایرانی نے وزیرتعلیم کی حیثیت سے اٹارنی جنرل کی اصطلاح کو قبول کرلیا تھا۔ جامعہ کیخلاف رٹ پٹیشن کی سماعت کی تاریخ ابھی نہیں آئی لیکن مرکزی حکومت نے فیصلہ کرلیا ہے کہ جب سماعت ہوگی تب وہ ایک نیا حلف نامہ داخل کرکے جامعہ ملیہ اسلامیہ کو اقلیتی ادارہ قرار نہ دینے کا موقف ظاہر کرے گی۔