احرام کی حالت میں موذی جانور مار سکتے ہیں ؟
اگر کسی کو کھٹمل یاجوئیں کاٹ رہی ہوں تو انہیں پکڑ کر پھینک سکتا ہے اورماربھی سکتا ہے، اس پر کوئی فدیہ نہیں البتہ مارنے سے پھینکنا اچھا ہے
احرام کی حالت میں جائز کاموں پر پہلے بھی روشنی ڈالی گئی تھی۔ اب مزید چند کاموں پر روشنی ڈالتے ہیں۔ واضح رہے کہ ان امور کو ” مباحاتِ احرام“ کہاجاتا ہے مگر بعض لوگ کم علمی کی وجہ سے ناحق پریشانی میں مبتلا ہوجاتے ہیں اورسمجھ لیتے ہیں کہ شاید احرام کی حالت میں انسان مشکلات میں جکڑ جاتا ہے۔
سمندری شکار :
سمندری جانوروں مچھلی وغیرہ کاشکار کرنا اور اس کا گوشت کھانا جائز ہے کیونکہ ارشادِ الہٰی ہے :
”تمہارے لئے سمندری جانوروں کاشکار اوران کا گوشت کھانا حلال کیاگیا ہے، یہ تمہارے اوردوسرے مسافروں کے فائدہ کےلئے ہے (وہاں بھی کھاﺅ اور زادِ راہ بھی لے سکتے ہو ) اورتم پرخشکی کاشکار حرام قراردیاگیا ہے جب تک تم احرام کی حالت میں رہو اوراللہ سے ڈرتے رہو جس کے پاس تم اکٹھے کئے جاﺅ گے ۔“(المائدہ69)۔
بلا قصد عورت سے چھوجانا :
احرام کی حالت میں دورانِ سفر یاخیمہ میں بیٹھتے اٹھتے بلاقصد اوربلا شہوت عورت سے چھوجائے توامام نوویؒ کے بقول بلا اختلاف ا س میں کوئی مضائقہ نہیںالبتہ شہوت کے ساتھ چھونا حرام ہے ۔
موذی جانوروں کو مارنا :
خشکی کے جانوروں کاشکار کرنا حرم اوراحرام میں حرام ہے لیکن اس کا یہ معنیٰ بھی ہرگز نہیںکہ کسی بھی جانور کو کسی بھی حالت میں نہیںمارسکتے بلکہ موذی (تکلیف دہ اورضرر رساں)جانور وں کوجان سے ماردینے کی اجازت ہے ۔اس سے حرم شریف کے احترام اوراحرام پربھی کوئی اثر نہیں پڑے گا اورنہ ہی اس پر کوئی کفارہ وفدیہ لازم آتا ہے۔امام نوویؒ نے اس پر تمام ائمہ کا اتفاق نقل کیا ہے ۔ اس جواز کی دلیل متعدد صحیح احادیث ہیں جن میں سے ایک حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے صحیح بخاری ومسلم ،ترمذی ونسائی اوربیہقی ومسند احمد میںمروی ہے کہ نبی اکرم نے ارشاد فرمایا :
”5 جانور ایسے ہیں جنہیں محرم قتل کردے تو اسے کوئی گناہ نہیں ۔“
جبکہ دوسری روایت جو حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے مروی ہے ام المو¿منین حضرت حفصہؓ کے طریق سے بیان کی ہے اس میں ان5 جانوروں کے نام بھی مذکور ہیں جو یہ ہیں :
”کوا ، چیل ، بچھو ، چوہا ، کاٹنے والا کتا۔“
صحیح بخاری ومسلم ،نسائی وابن ماجہ ، بیہقی اورمسند احمد میں حضرت عائشہؓ کی حدیث میںبچھو کی بجائے سانپ کالفظ ہے چنانچہ وہ فرماتی ہیں نبی نے ارشاد فرمایا :
”5 جانور فاسق (موذی)ہیں، انہیں حل وحرم ہر جگہ اورہر حالت میںقتل کردیاجائے: سانپ،سیاہ وسفید کوا، چوہا،کاٹنے والا کتااورچیل ۔“
مذکورہ 5 موذی جانوروں کے علاوہ ان کے حکم میں آنے والے دوسرے جانوروں مثلا ًشیر ، چیتا اوربھیڑیا وغیرہ کومارنے سے بھی احرام پر کوئی اثر نہیں پڑتا اوران کو کاٹنے والے کتے کے حکم میں شمار کیاگیاہے ۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں :
”جو چیز عادةً انسانوں کےلئے اذیت ناک ہو اسے محرم مارسکتا ہے جیسے سانپ بچھو ،چوہا ،کوا اورکاٹنے والاکتا۔“
اورآگے چل کر فرماتے ہیں:
”اگر کسی کو کھٹمل یاجوئیں کاٹ رہی ہوں تو انہیں پکڑ کر پھینک سکتا ہے اورماربھی سکتا ہے اور اس پر کوئی فدیہ نہیں البتہ مارنے سے پھینکنا اچھا ہے ۔ اگر کسی کو جوئیں تکلیف نہ دے رہی ہوںتوکسی کو سر دکھانا درست نہیں اوراگر کوئی ایسا کرلیتا ہے تو بھی ا س پر کوئی فدیہ نہیں ہے ۔“
منہ ڈھانپنا :
بعض آثار صحابہ وتابعین سے منہ کوڈھانپ لینے کے جواز کا پتہ چلتا ہے چنانچہ مسند امام شافعی اورسنن سعید بن منصور میں حضرت قاسمؒ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عثمان بن عفان ذوالنورینؓ، زید بن ثابتؓ اورمروان بن حکمؓاحرام کی حالت میں منہ کو ڈھانپا کرتے تھے ۔ امام مجاہدؒ فرماتے ہیں کہ جب آندھی چلتی تو لوگ (صحابہ کرامؓ)احرام کی حالت میں بھی منہ ڈھانپ لیتے تھے ۔امام طاﺅس کاقول ہے کہ محرم گردوغبار یاراکھ سے بچاﺅ کےلئے منہ ڈھانپ سکتا ہے ۔ان آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ بوقتِ ضرورت منہ ڈھانپ لینے سے کوئی فدیہ لازم نہیںہوتا۔
پچھنے لگوانا يا فصد کروانا:
احرام کی حالت میں سر یا جسم کے دوسرے کسی بھی حصہ پر پچھنے لگوانا ، فصد کروانا یاسینگی کھنچوانا بھی جائز ہے کیونکہ صحیح بخاری ومسلم ، ابوداﺅد،ترمذی اورنسائی ومسند احمد میں حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے :
”نبی اکرم نے احرام کی حالت میں فصد لگوائی (اورایک روایت میں ہے )یہ فصد ایک درد کی وجہ سے سر میںلگوائی تھی۔“
جبکہ ابوداﺅد،نسائی اورمسند احمد میں حضرت انس بن مالکؓ سے مروی ہے :
”نبی نے ایک درد کی وجہ سے احرام کی حالت میں اپنے پاﺅں پر فصد کروائی۔ “
سر میں فصد کروانے کےلئے کچھ بال کاٹنے ضروری ہوتے ہیں مگر ان احادیث میں کسی فدےئے کاکوئی ذکر نہیں یہی وجہ ہے کہ امام ابن تیمیہؒ فر ماتے ہیں کہ ایسی مجبوری کی صورت میں تھوڑے سے بال کٹوانے پر بھی کوئی فدیہ نہیں ۔
سر یا جسم کے کسی حصہ کو خراشنا :
احرام کی حالت میں سر یا جسم کے کسی حصہ پرخارش ہوتو خراشا جاسکتا ہے کیونکہ صحیح بخاری میں تعلیقاًاورمو¿طاامام مالک میں موصولاًمروی ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے پوچھا گیاکہ کیا محرم اپنے جسم کے کسی حصہ کوخراش سکتا ہے ؟تو انہوں نے جواب دیا ہاں اورفرمایا کہ خوب خراشے اوریہ بھی فرمایا:
”اگر میرے دونوں ہاتھ باندھ دیئے جائیں اور میرے لئے اس کے سوا کوئی چارہ¿ کار نہ رہے کہ میں اپنے پاﺅں سے خراشوں توبھی میں ضرور ہی خراش لوں گی ۔“
ایسے ہی صحیح بخاری میں تعلیقاً اوربیہقی میںموصولاًحضرت عبداللہ بن عمرؓ کے بارے مےں ابو مجلز بیان کرتے ہیں :
”میں نے حضرت عبداللہ بن عمرؓ کودیکھا کہ وہ احرام کی حالت میں اپنے سر کو خراش رہے تھے اورجب میںنے بغور دیکھا تو معلوم ہواکہ وہ اپنی انگلیوں کے پوروں (نرمی واحتےاط) سے خراش رہے ہیں ۔“
بیلٹ ،گھڑی ،زیور ،عینک ،پرس ،آئینہ :
احرام کی تہبند کے طورپر استعمال کی جانے والی چادرپر بیلٹ باندھنا ،بوقتِ ضرورت چادر کو گرہ دے لینا ،مر د کےلئے چاندی کی انگوٹھی پہن لینا، عورت کا کوئی بھی زیور پہننا ،کلائی پر گھڑی باندھنا ، عینک لگانا ، پیسوں والا پرس کندھے پر لٹکانا یاگلے میںباندھ کرلٹکالینا اورآئینہ دیکھنا، یہ سبھی امور جائز ہیں۔ ان میں سے کسی کی ممانعت ثابت نہیں بلکہ اس کے برعکس پرس لٹکانے یا بیلٹ باندھنے اورانگوٹھی پہننے کے جواز پر حضرت عائشہؓ اورامام عطاءؒ کے آثار بخاری شریف میں موجود ہیں۔علامہ ابن حزمؒ نے المحلٰی میں حضرت عبداللہ بن عمرؒ کے بارے میں حضرت نافع ؒ کا یہ اثر نقل کیا ہے :
”وہ (ابن عمر ؓ) احرام کی حالت میں آئینہ دیکھ لیاکرتے تھے۔“
صحیح بخاری ومحلّیٰ میں حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں :
”محرم اگر آئینہ دیکھ لے توا س میں کوئی حرج نہیں ۔“
پھول یا بُوٹی کی خوشبو سونگھنا :
احرام کی حالت میں خوشبو لگانا تو منع ہے البتہ کسی بوٹی یا پھول کی خوشبو سونگھنا قابل مو¿اخذہ نہیں جیساکہ صحیح بخاری میں حضرت ابن عباس ؓاورموطاامام مالک وسنن بیہقی میں حضرت سعید بن مسیبؒ کے آثار سے پتہ چلتا ہے ۔علامہ ابن حزم نے بھی المحلٰی میں اسے جائز قراردیا ہے۔ حضرت ابن عباسؓ کاوہ اثر بھی نقل کیا ہے جو صحیح بخاری میں تعلیقاًاوردارقطنی وبیہقی میںموصولاًمروی ہے جس میں ہے کہ اللہ تعالیٰ کو تمہارے میل کچیل سے کوئی غرض نہیں اورفرمایا کہ محرم حمام میں داخل ہوکرنہا سکتا ہے، کوئی دانت داڑھ درد کررہا ہو تو اسے نکال (نکلوا) سکتاہے، خود بخود کوئی ناخن ٹوٹ جائے تو اسے کھینچکرپھینک سکتا ہے اوران کے نزدیک گلِ ریحان (بلکہ کسی بھی پھول یابوٹی )کی خوشبو سونگھنے میںکوئی حرج نہیں ۔دانت داڑھ نکلوانے کی طرح ہی بوقتِ ضرورت مرہم پٹی کروائی جاسکتی ہے، اس سے بھی احرام پر کوئی اثر نہیں پڑتا ۔امام مالک کابھی یہی قول ہے ۔
جان بوجھ کر خوشبو کے استعمال پر تو فدیہ ہے کیونکہ یہ منع ہے لیکن اگر کوئی شخص لاعلمی کی وجہ سے یابھول کر خوشبو لگالے تو ا س کے بارے میں صحیح بخاری میںامام عطاءبن رباح ؒ کا فتویٰ تعلیقاًاورطبرانی کبیر میں موصولاًمروی ہے اورامام ابن المنذر نے الاوسط میں بھی اسے ذکر کیا ہے کہ اس پر کوئی کفارہ نہیں ۔
کوئی چیز سرپر اٹھالینا اورکمبل اوڑھنا :
احرام کی حالت میں اگر اسے اپنا سامان یاکوئی چیز سرپر اٹھاناپڑجائے تو ضرورت کے وقت ایساکرسکتا ہے ا س میں کوئی حرج نہیں۔ ایسے ہی اگر سردی وغیرہ کی وجہ سے کمبل اوڑھ کرلیٹنا پڑے تو بھی کوئی مضائقہ نہیں بشرطیکہ سرننگا رہے اورسابقہ سطور میں مذکور تفصیل کے مطابق اگر آنکھوں تک منہ ڈھک جائے توا س کی گنجائش ہے ۔ہاں اگر بخار وغیرہ کی وجہ سے پورا سرمنہ ڈھانپنا ضروری ہوجائے توپھرکفارے کے طورپر فدیہ ضروری ہوگا۔