جہیز ، وہ تالی جو دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے
رشتے والے لڑکی کے والدین سے کیوں نہیں کہتے کہ ہمیں جہیز نہیں چاہئے
دردانہ پرویز۔ الخبر
غنیمت ہے ، اتنا توہوا کہ کچھ سلیم الفطرت انسانوں کی کوششوں سے کم از کم پڑھے لکھے طبقے میںہی سہی جہیز کے تذکرے اب باعث فخر نہیں سمجھے جاتے لیکن بات یہاں سمجھنے اور سمجھانے کی حد تک نہیں ہو رہی ہے بلکہ چند قدم اور آگے بڑھنے کی ہورہی ہے۔ ہماری حد تک اتنا تو ہوا کہ کوئی خاتون ہمارے سامنے بیٹھ کر اپنی بیٹی کو جہیز دینے کی گفتگو نہیں کرتی ہیں اور نہ ہی شادی کے تہواروں کا آنکھوں دیکھا حال بیان کر تی سنائی دیتی ہیں، نہ ہی قریبی رشتے دار وڈیو ز اورتصاویر کی نمائش کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے بھاری جہیز کی ناپسندیدہ رسم کے خلاف ایک پتھر تو مار ہی دیا۔ گو یہ انتہائی نحیف و کمزور ہی سہی مگر احتجاج تو ہے ۔
ہم اس بات پر پورا یقین رکھتے ہیں کہ چرا غ سے ہی چراغ جلتے ہیں۔ یہ تو آپ نے بھی سنا ہو گا کہ نیم حکیم خطرہ ¿جان ہوتے ہیں۔ اسی کے مصداق ”نیم خواندہ “قسم کے لوگ جہیز کے خلاف آواز بلند کرتے وقت ایک بہت اہم نکتہ بھول جاتے ہیں کہ جہیز در حقیقت دوطرفہ مسئلہ ہے۔یہ وہ تالی ہے جو دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے ۔
بظاہر ہم انتہائی الم انگیز انداز میں جہیز پر تنقید کرتے ہوئے لڑکیوں کے والدین کی مجبوریاں اور بے بسیاں بیان کردیتے ہیں اور جہیز لینے والوں کو احساس دلاتے ہیں کہ ان کا ضمیر سو رہا ہے ، اسے بیدارکرنا ضروری ہے ۔ ایسا نہ ہو کہ ہماری نیند کی گھڑی آپہنچے اور ہم بھی ضمیر کے ساتھ ہی سو جائیں ۔
جہیز لینے والوں کو برا بھلا کہنے والوں سے ایک سوال ہے کہ یہی والدین جب اپنے بیٹوں کے لئے رشتے تلاش کرنے نکلتے ہیں تو کیا ان کو لڑکیوں کے والدین کی آنکھوں میں بے بسی و لاچاری نظر نہیں آ تی۔ وہ ان سے واشگاف الفاظ میں یہ کیوں نہیں کہتے کہ ہمیں کوئی جہیز وغیرہ نہیں چاہئے ۔ہم آپ سے بیٹی کی شکل میں جو قیمتی متاع لے کر جا رہے ہیں، اس سے زیادہ اہمیت کی حامل کوئی شے نہیں ہو سکتی۔ آپ کی بیٹی ہی ہمارے بیٹے کےلئے سب سے بڑا جہیز ہے ۔ لڑکے کے والدین بہو تلاش کرتے وقت سوچتے ہیں کہ انہیں لڑکی کے ساتھ ساتھ قیمتی سامان بھی ملے گا، جس سے گھر بھرے گا۔ ایسے میں ا گر ان کا ضمیر انہیں جھنجوڑنے کی کوشش کرے تو وہ اسے یوں لوری دے کر سلانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہم نے اپنی زبان سے تو جہیز نہیں مانگا۔ لڑکی کے والدین اپنی خوشی سے بیٹی کو جو دینا چاہتے ہیں، وہ دے رہے ہیں اور لازمی سی بات ہے کہ وہ جو کچھ دے رہے ہیں، وہ ان کی بیٹی نے ہی برتنا ہے۔ ہم نے منع کرنے کی کوشش توکی مگرانہوں نے کہا کہ ہم اپنی بیٹی کو اپنا گھر سجانے کے لئے اس کی پسند کی اشیاءدے رہے ہیں، آپ اسے جہیز نہ سمجھیں۔ ہم یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ یہی وہ دورخی ہے کہ جس کی وجہ سے آج ہم 21صدی میں جینے کے باوجود کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیںکر سکے ۔
آج اگر ہماری معزز بہنیں ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ غور و فکر کریں تو، ان شاءاللہ، انہیں مندرجہ ذیل فوائد حاصل ہوں گے:
٭٭ اس دنیا میں ہم سب بہت مختصر عرصے کے لئے آئے ہیں لہٰذا اگر ہم میں سے ہر بہن یہ فیصلہ کر لے کہ اس کی ابتداءمیرے ہی گھر سے ہو گی تو یقین جانیں کہ آپ کے گھر وں میں برکتوں کا نزول شروع ہو جائیگا۔
٭٭ معاشرے میںتیزی سے نتائج کا حصول اس وقت زیادہ ہو گا جب صاحبِ ثروت بہنیںآگے بڑھیں گی۔
٭٭جہیز جیسی بری رسم سے چھٹکارا حاصل کر کے آپ کثیر سرمایہ بچا سکتی ہیں۔
٭٭ جہیز کی عدم فراہمی سے بچنے والے سرمائے کا بہترین استعمال محلے اور گاوں میں خواتین کی تعلیم کے لئے درسگاہیں ، سلائی کڑھائی کے مراکز، شفاخانے اور دیگر مفید مراکز کے قیام جیسی سرگرمیاں شروع کی جا سکتی ہیں۔