شاہد کے چہرے پر اطمینان تھا مگر میں مضطرب تھا ،نجانے یہ کیا وعدہ لے گیا میرا دوست ،میں کیسے نبھائوں گا اتنا بڑا وعدہ
* * * مصطفی حبیب صدیقی* * * *
بات بکھری بکھری تھی مگر تھی درد بھری ،جب وہ اپنی کہانی سنارہا تھا ایسا لگا جیسے میں اس کے ہر سفر میں اس کے ساتھ تھا ،بچپن کا لنگوٹیا جب بھری جوانی میں بچھڑنے لگا تو کیا شرط رکھ گیا مگر پھر۔۔
’’یار آج تیری میری دوستی کو 25برس ہوگئے ،لیکن ہر لمحہ پہلے سے کہیں زیادہ تازہ اور نیا معلوم ہوتا ہے ،اللہ کرے ہماری دوستی تاحیات قائم رہے‘‘ شاہدکے ادا کئے گئے الفاظ اللہ نے فوری ہی قبول کرلئے۔
شاہد اورنوید کی دوستی کی دنیا مثال دیا کرتی تھی۔ایک ہی نشست میں اپنی بے لوث اور بے مثال دوستی اور پھر اس عزیز جگر کے بچھڑنے کی دکھ بھری داستان سناتے ہوئے نوید کی آنکھیں کئی مرتبہ ڈب ڈبائی تھیں مگر ضبط کے بندھن نہ ٹوٹے تھے۔نوید کی آج سالگرہ تھی اور اسے کسی کی تلاش تھی جو اس کے دوست کے کارنامے،احسانات اور وعدے سن سکے اور پھر داد بھی دے سو میں نے یہ موقع غنیمت جانا اپنے لئے بھی اور نوید کیلئے بھی۔
’’یار مصطفی بھائی ،کیا بتائوں،وہ کیا تھا بس سب کچھ ہی تو تھا ،آج بہت یاد آرہا ہے سالگرہ جو ہے میری اور وہی تو تھا جو کیک لے کر میرے گھر پہنچ جاتا تھا اور کہتا تھا کہ ’’ہپی برتھ ڈے بھائی‘‘۔۔۔
شاہد نے مجھے کبھی نام سے نہیں پکارا ،وہ ہمیشہ بھائی کہتا تھا ،میری اہلیہ کی بہت عزت کرتا۔میر ی شادی پہلے ہوگئی تھی جبکہ شاہد گھر کی ذمہ داریاں نبھارہا تھا۔5سال پہلے شاہد کی شادی ہوئی او ر ولیمے کی رات میں اپنی فیملی کے ساتھ شاہد اور نئی نویلی بھابھی کو مری ،سوات کی سیر کو لے گیا یہ میرا تحفہ تھا اپنے یار کیلئے۔(نوید کے چہرے پر کرب کے آثار نمایا ں تھے)
ہم نے بہت انجوائے کیا یہ دیکھیںمیں نے ویڈیو بھی بنائی تھی(موبائل پر کلپس دکھاتے ہوئے)پھر ہم واپس آگئے۔شاہد کے 2 بیٹے تھے ، ایک کی عمر4سال تھی جبکہ دوسرا بیٹا ابھی ایک سال کا ہی تھا کہ شاہد کو منہ کا کینسر ہوگیا ۔وہ گٹکا بہت کھاتا تھا۔مرض بڑھتا چلاگیا۔اس کا لیدر کا کام تھا وہ جیکٹس بنواتا تھا ۔یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ شاہد بہترین آرٹسٹ بھی تھا ۔
شاہد کے منہ پر بڑا سا پھوڑا نکل چکا تھا ۔اس سے پہلے میں اسے کئی ڈاکٹروںکے پاس لے گیا مگر سب کا کہنا تھا کہ بس اب انتظار کرو۔مجھے آج بھی وہ رات یا د ہے جب ایک اسپتال میں ڈاکٹر نے مجھے بلاکر کہا اسے لے جائو میں نے کہا مجھے حقیقت تو بتادو کہ میرے دوست ،جگر ،میرے لنگوٹیا کو کیا ہوگیا ۔ڈاکٹرنے جواب دیا کہ تم تو ابھی اتنا رورہے ہو سنوگے تو برداشت نہیں کروگے۔میرے اصرار اور وعدے پر ڈاکٹر نے بتایا کہ شاہد بس ایک ماہ کا مہمان ہے اور پھر میری ہچکیاں پورا اسپتال سن سکتا تھا۔
بیوی ایسی بھی ہوسکتی ہے یقین نہیں آتا۔شاہد کی بیوی ہم سے پیسے لیتی رہی مگر شاہد بستر مرگ پر تڑپتا رہا ،یہ ٹھیک ہے کہ اس کا علاج نہیں تھا مگر اس کی اچھی دیکھ بھال تو کی جاسکتی تھی۔مگر بے چار ے کی شریک حیات بھی مطلبی نکلی۔
ایک رات شاہد میرے پاس آیا اور میرے گھر میں بیٹھ کر بات کرنے پر اصرار کیا۔کہنے لگا کہ ’’بھائی!میں نے تم سے جو بھی مانگا تم نے دیا آ ج بھی میں تم سے کچھ مانگنے آیا ہوں انکار نہ کرنا ‘‘۔
میں نے کہا کہ ’’ہاں ہاں بولو کیا ہوا‘‘
شاہد:’’بھابھی میں آپ کے پیر پکڑ کر التجا کرتا ہوں کہ انکار نہ کیجئے گا‘‘
بیگم:’’نہیں بھائی آپ کہیں ہم ہر بات مانیں گے‘‘
شاہد:’’نوید بھائی!میرے ماں باپ کا کوئی نہیں،اور میری بیوی بچوں کا بھی اس دنیا میں نہیں کوئی،میں جانتا ہوں کہ میری بیوی جیسا میں نے آپ لوگوں کو بتایا ویسی نہیں ہے مگر اس کے باوجود میری ہاتھ جوڑ کر آپ لوگوں سے درخواست ہے کہ جب میں مرجائوں تو آپ میری بیوی سے شادی کرلینا،میں جانتا ہوں کہ آپ کیلئے دوبیویاں رکھنا مسئلہ نہیں ہوگا،بھابھی خدارا بھائی کو اجازت دیدیں‘‘۔
شاہد کے الفاظ گویا ہتھوڑا بن کر میرے سر پر پڑ رہے تھے،مجھے یقین نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے مگر میری بیوی سمجھ چکی تھی اس نے تسلی دی کہ بھائی آپ جلد ٹھیک ہوجائینگے ،پریشان نہ ہوں،مگر اس کا اصرار بڑھتا ہی چلاگیا میری بیوی بولی،چلیں ہم وعدہ کرتے ہیںکہ اگر خدانخواستہ ایسا ہوا کہ تو میرے شوہر آپ کی بیوی سے شادی کرلیں گے۔
شاہد کے چہرے پر اطمینان تھا مگر میں مضطرب تھا ،نجانے یہ کیا وعدہ لے گیا میرا دوست ،میں کیسے نبھائوں گا اتنا بڑا وعدہ۔میری بیوی کیلئے بھی سلام تھا کہ اس نے فوری ہی حامی بھرلی۔
مارچ میں شاہد اس دنیا سے گزرگیا،شام سے ہی میرا دل بے چین تھا،گھر فون کیاتھا تو بھابھی نے یہ کہہ کر فون رکھ دیا تھا کہ ان کی پٹی بدل رہی ہوں اور رات کو موت کی اطلاع مل گئی۔
میرا دوست ،جگر ،بھائی چلاگیا ،میری تو جیسے دنیا ہی بے کار ہوگئی،ایسا لگا کہ جسے کوئی دل نکال کر لے گیا ۔وہ رات کیسے گزری نہ پوچھو۔
اصل کہانی اب شروع ہوتی ہے۔شاہد کی بیوی نے انتقال کے ایک ماہ بعد مجھے فون کیا کہ ’’بھائی ،10ہزار روپے کی ضرورت ہے بچوں کی فیس دینی ہے‘‘میں اپنی بیگم کے ساتھ گھر گیا اور پیسے دیدیے۔مگر سوچ میں پڑ گیا کہ 7ماہ کے اندر13لاکھ روپے دیئے ہیں وہ کہاں گئے ۔پوچھنے پر جواب ملا کہ گھر میں خرچ ہوگئے مگر سب جھوٹ نکلا۔شاہد کی بیوی نے اپنے شوہر کی بیماری کا سہارا لیتے ہوئے شاہد کے موبائل سے ہر دوست کو میسیج کئے تھے اور پیسے مانگے تھے ،تمام ہی دوستوں نے پیسے دیئے ۔عدت کے بعد حقیقت آشنا ہوگئی۔
شاہد کے سسر پہلے ہی بھانپ چکے تھے کہ شاہد کے دن پور ے ہوچکے ہیں،انہوں نے بیٹی کو مشورہ دیا تھا کہ شاہد کے لئے جتنے بھی پیسے مل رہے ہیں وہ سب جمع کرکے رکھے ،شاہد چند روز کا مہمان ہے ،اس کے بعد تمہیں الگ گھر دلادونگا اور تم وہیں رہنا ۔بیوی کو بھی شوہر کی موت کا انتظا ر تھا اور پھر وہ فوراً ہی الگ گھر لے کر وہاں منتقل ہوگئی۔
دوست بتاتے ہیں کہ آج بھی وہ شاہد کے موبائل فون کو استعمال کرتے ہوئے شاہد کے دوستوں سے پیسے بٹورتی ہے کیا بیویاں ایسی ہوتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔
شاہد کے والدین کو میں نے اور میری بیگم نے شاہد کی وصیت بتائی کہ اس نے وعدہ لیا تھا کہ میں شاہد کی بیوہ سے شادی کرلوں اور ہم اپنا وعدہ نبھانے کیلئے تیار ہیں مگر اس کے والدین اور بہنوں نے سمجھایا کہ وہ سب کچھ لے کر بھاگ گئی ہے تہیں بھی لوٹ لے گی وہ وفادار نہیں اور پھر ہم واپس آگئے ۔۔
آہ !میرا دوست کتنا باوفا تھا اور اس کی بیو ی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاہد کے علاج کیلئے ہم دوستوں نے مل کر 12سے13لاکھ روپے بھابھی کو دیئے تھے ،مگر شاہد کے علاج پر ایک روپیہ خرچ نہیں ہورہا تھا اس کی پٹی بدلنے پر بھی جو500روپے خرچ ہونے تھے وہ بھی کمپاؤنڈر نے معاف کردیئے تھے کہ شاہد کے گھر کے حالات اچھے نہیں تھے۔