Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

گملا توڑنے کیلئے نہیں ہوتا

نیب پر غصہ نکالنے یا طعنے بازی پر اترنے سے کہیں بہتر یہ نہ ہوگا کہ اس ادارے کو مزید شفاف اور مضبوط بنایا جائے
وسعت اللہ خان
ویسے تو مشرف دور میں قائم کردہ قومی احتساب بیورو ( نیب ) کا کام بلاامتیاز احتساب ہے مگر عملاً  نیب سب کی ایسی بھابی بن گئی ہے جو کسی کو پکڑے تو گالیاں کھائے نہ پکڑے تو گالیاں کھائے۔کوئی اس بے چاری پر اعتبار کرنے کو تیار نہیںحتیٰ کہ سپریم کورٹ بھی نہیں کہ جس نے سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کے خلاف پانامہ کیسز نیب کو تو دے دئیے ہیں مگر اوپر اپنا ایک جج بھی ڈنڈا لے کر بٹھا دیا ہے جو نیب سے سارا کام6 ماہ میں مکمل کروا کے دکھائے۔خود سابق وزیرِ اعظم نواز شریف بھی اس ادارے کے پَر کترنا چاہتے تھے مگر اپنے پر کتروا بیٹھے۔
حالانکہ نیب کے چیئرمین کا تقرر وزیرِ اعظم اور قائدِ حزبِ اختلاف باہمی مشاورت سے کرتے ہیں۔پھر بھی دونوں فریق اسے مشرف دور کی باقیات ہونے کا طعنہ دیتے رہتے ہیں گویا نیب خود ہی پیدا ہوگئی ہو۔
  رہی بات تیسری بڑی پارلیمانی جماعت تحریک ِ انصاف اور اس کے شفاف نئے پاکستان کی،تو اس کے زیرِ اقتدار خیبر پختونخواکے احتساب کمیشن کے سربراہ ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل محمد حامد خان نے گزشتہ برس عہدے سے احتجاجاً استعفی دے دیا کیونکہ صوبائی حکومت نے احتساب ایکٹ مجریہ 2015میں ترمیم کرکے کمیشن کو پابند کردیا ہے کہ وہ ایک5 رکنی کمیٹی کی منظوری کے بغیر کسی کو گرفتار نہیں کرے گا۔جنرل حامد خان نے اپنے استعفیٰ میں لکھا کہ ان ترامیم کے بعد اب وہ اور کمیشن بے جان ہوگئے ہیں لہذا انہیں ایسے بے اختیار کمیشن کی سربراہی منظور نہیں۔ 
تاہم ’’ اوروں کو نصیحت خود میاں فصیحت ’’ کے اصول پر سختی سے کاربند خیبر پختونخوا پر حکمران  تحریکِ انصاف وفاقی سطح پر نیب کے امور میں مبینہ مداخلت اور اس کے اختیارات میں کسی بھی طرح کی ممکنہ کمی کی سخت مخالف ہے۔
نیب نومبر1999 ء میں قومی احتساب آرڈیننس کے تحت بطور ایک آئینی ادارہ وجود میں آیا اور اس کی خود مختاری کو آئین کے آرٹیکل270 کے تحت تحفظ دیا گیا۔چیئرمین اور پراسیکیوٹر جنرل کے عہدوں کو بھی آئینی تحفظ حاصل ہے۔نیب کے دائرہ اختیار میں کم و بیش ہر سرکاری و نیم سرکاری اور سرکار سے معاملہ کرنے والا ہر نجی ادارہ ہے۔نیب کو بدعنوانی ، مالی بدانتظامی وغیرہ کے ضمن میں انکوائری ، گرفتاری ، تفتیش اور فیصلے کے اختیارات حاصل ہیں۔
نیب نے اب تک ایک اندازے کے مطابق ڈھائی سو ارب روپے کی ریکوری کی۔زیادہ تر ریکوری ’’ پلی بارگیننگ ’’ کے ذریعے ہوئی۔اس طریقے کے تحت ملزم اقبالِ جرم کرتا ہے اور جتنی مسروقہ رقم زیرِ بحث ہے اس کا ایک حصہ کہ جس کا تعین نیب کرتا ہے جمع کروانا پڑتی ہے اور پھر ملزم کی جان چھوٹ جاتی ہے اور کیس واپس لے لیا جاتا ہے تاہم سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کے بقول ’’ پلی بارگین فارمولا ’’  ادارتی بدعنوانی کا دوسرا نام  ہے۔
نیب پر یہ تنقید بھی ہوتی ہے کہ اس کا بس سویلین اداروں پر زیادہ چلتا ہے اور سابق فوجی افسروں کے بہت سے کیس اس نے التوا میں ڈالے ہوئے ہیں۔
ٹرانسپیرنسی انٹر نیشنل کے مطابق پاکستان کرپشن کے اعتبار سے168 ممالک کی فہرست میں 130سے160ویں نمبر کے درمیان کئی برس سے گھوم رہا ہے، یعنی واحد اطمینان یہ ہے کہ اس دنیا میں ہم سے زیادہ کرپٹ ممالک بھی موجود ہیں۔
مگر پاکستان کرپشن ، بدعنوانی اور بدانتظامی کے اعتبار سے جس ناقابلِ رشک صورتحال سے دوچار ہے اس سے نکلے بغیر حقیقی ترقی ناممکن ہے اور اس دلدل سے باہر آنے کیلئے کوئی نہ کوئی تو ایسا ادارہ درکار ہے جو بلا امتیاز سب پر ہاتھ ڈال سکے۔یقیناجس پر بھی ہاتھ ڈالے گا وہ اور اسکے ہم نوا ضرورچیخیں گے لیکن فیصلہ یہ کرنا ہوگا کہ کیا ان چیخوں کا الزام ہاتھ ڈالنے والے ادارے پر دھرا جائے یا چیخنے والے کو اپنے حال پر چھوڑ دیا جائے ؟
جب تک ’’ ایک کرپشن فری پاکستان ’’ کے یک نکاتی ایجنڈے پر تمام اہم سیاسی و غیر سیاسی مقتدر قوتیں اور ادارے متفق نہیں ہوتے اور اپنے سوا سب کا احتساب چاہتے ہیں تب تک اگر کوئی ادارہ آسمان سے بھی اتر آئے تو اس پر بھی کسی نہ کسی کو اعتراض اور شک رہے گا۔
تو کیا امریکی ایف بی آئی اور ہندوستانی سی بی آئی میں سب فرشتے ہیں ؟ اسرائیل کو بھلے آپ اس کی فلسطین دشمن پالیسیوں پر کوستے رہیں مگر کوئی سیکھنا چاہے تو دشمن سے بھی سیکھ سکتا ہے۔اسرائیل میں اندرونی احتساب کا نظام اتنا کڑا ہے کہ سابق وزیرِ اعظم یہود اولمرٹ صرف پونے 2لاکھ ڈالر کی رشوت لینے کے الزام میں 70 برس کی عمر میں ڈیڑھ برس کی جیل کی سزا کاٹ رہے ہیں۔سابق اسرائیلی صدر موشے گستاف کو جنسی ہراسگی کے کیس میں نہ صرف عہدے سے استعفیٰ دینا پڑا بلکہ انہیں جج کے کٹہرے میں بھی کھڑا کردیا گیا۔آنجہانی ایریل شیرون کو اپنے بیٹے کو بزنس دلانے کیلئے بطور وزیرِ اعظم سرکاری اثرو رسوخ استعمال کرنے کے الزام میں9 گھنٹے پولیس پوچھ گچھ کا سامنا کرنا پڑا۔موجودہ وزیرِ اعظم نیتن یاہو کی بیوی سارہ کے بارے میں اس الزام کی تحقیق ہو رہی ہے کہ انہوں نے اپنی بحیثیت خاتونِ اول وزیرِ اعظم ہاؤس کی پارٹیوں پر سرکاری طور پر اس مد میں مختص بجٹ سے زیادہ پیسے اڑا دئیے
یہ مثالیں دینے کا مطلب یہ نہیں کہ پاکستان جیسے ممالک میں رائج ’’ کلائنٹ پیٹرن کلچر ‘‘ کا خاتمہ خدانخواستہ راتوں رات ممکن ہے لیکن کہیں سے تو شروع کرنا ہوگا۔نیب پر غصہ نکالنے یا طعنے بازی پر اترنے سے کہیں بہتر یہ نہ ہوگا کہ اس ادارے کو مزید شفاف اور مضبوط بنایا جائے اور اسکے تحقیقاتی و تعزیری طریقوں میں اگر بنیادی سقم ہیں تو انہیں دور کیا جائے۔نیز اس خواہش کو بھی دفن کردیا جائے کہ موجود گملے کی جگہ نیا خرید لینا بہتر ہے۔خرابی گملے میں نہیں بلکہ گملے کو بار بار توڑنے اور بدلنے کیخواہش میں ہے۔
 

شیئر: