معاشرتی اکائی میں جہاں انفرادی حیثیت بنیادی ہے وہیں اجتماعی حوالے سے خاندان،گھر بھی بنیادی حیثیت رکھتا ہے کہ یہی وہ پیمانہ ہے جو روزمرہ زندگی میں ایک فرد کو تربیت دے کر معاشرے میں بھیجتا ہے جہاں اس فرد کو نہ صرف اپنی پہچان کروانا ہوتی ہے بلکہ اپنے بڑوں کی تربیت کا اظہار بھی کرنا ہوتا ہے کہ اس کی تربیت کن ہاتھوں میں ہوئی ہے۔ مثبت سوچ رکھنے والا شخص اجتماعی ترقی کا خواہشمند جبکہ منفی سوچ کا مالک فقط اپنی ذات کی نمودو نمائش پر زیادہ زور دیتا ہے اور اس مقصد کی خاطر کسی کی بھی ٹانگیں کھینچنے سے گریز نہیں کرتا۔ ایک خاندان میں رہنے والوں میں بھی فقط ایک منفی سوچ کا حامل شخص،پورے خاندان کی ترقی معکوس کا موجب بنتا ہے اور ایسا کوئی گھرانہ ،کبھی بھی پرسکون ماحول میں نہیں رہ سکتا چہ جائیکہ ترقی کی منزلیں طے کرے،ایسے گھرانے میں ترقی بالعموم معکوس ہی ہوتی ہے۔
ہم آہنگی کے حوالے سے یہی صورتحال ملکی سطح پر بھی واضح نظر آتی ہے کہ اس وقت ہم بابائے قوم کے فرمان ’’ایمان،اتحاد،تنظیم‘‘ سے کوسوں دور ہیں اور مسلسل ایک دوسرے سے بدگمان ہیں ،اٹھنے والی ہر انگلی دوسرے کی جانب ہے مگر اپنے گریبان میں دیکھنے سے گریزاں۔ ہر ادارے اور ہر شخص کی یہی خواہش کہ درستگی میں پہل دوسرا کرے،میرا شملہ اونچا رہے،میری اکڑ،میری آن بان اور میری شان میں کوئی فرق نہ پڑے،گرے تو دوسرا،جھکے تو دوسرا،اعتراف کرے تودوسراجبکہ میری شان کی سب تعریفیں کریں،مجھے ہر غلطی سے مبرا سمجھا جائے، میری ہر کوتاہی سے صرف نظر کیا جائے،میرے اشارہ ابرو کو ہی قانون سمجھا جائے،اگر کہیں میں قانون کی خلاف ورزی بھی کروں تب بھی میری اس کوتاہی/خلاف ورزی کو ہی قانون بنا دیا جائے،میں ہر لحاظ سے کاملیت کا درجہ رکھوں،بس اس وقت یہ سوچ ہے جو معاشرے میں روا نظر ہے۔ ہر دوسرا سیاستدان آئین و قانون کی دہائی دیتا نظر آتا ہے مگر مجال ہے کہ خود کسی آئین یا قانون کی پروا کرتا ہو،ریاست کے دوسرے اہلکاروں کے لئے ’’نوکر‘‘ کی اصطلاح تو رائج ہے مگر کیا منتخب نمائندے ریاست کے خزانے سے ’’تنخواہ‘‘ وصول نہیں کرتے؟کیا وہ عوام کے ’’نوکر ‘‘ نہیں؟؟حقیقت یہ ہے کہ ملازمت کی شرائط کے حوالے سے دیکھا جائے تو ریاست کے مستقل ملازم، جو اپنی قابلیت کی بنیاد پر ملازمت حاصل کرتے ہیں،وہ ہی در حقیقت ریاستی امور کو آئین و قانون کے تحت چلانے کے ذمہ دار ہیں جبکہ ایک مخصوص مدت کے لئے منتخب ہونے والے عوامی نمائندگان کی حیثیت جز وقتی ملازم کی سی ہے،جسے دوبارہ منتخب ہونے کے لئے عوام کے پاس جانا پڑتا ہے لیکن اس حقیقت سے کوئی آنکھ نہیں چرا سکتا کہ ایک منتخب نمائندہ،جو منتخب ہونے کے بعد فرعون بن جاتاہے،وہ بھی ریاست کا ملازم ہی ہے،ریاست کا مالک قطعاً نہیں ،اس پر بھی قوانین ویسے ہی لاگو ہوتے ہیں جیسے ایک عام انسان پر یا کسی بھی دوسرے ریاستی ملازم پر،کسی منتخب نمائندے کوکسی بھی طور قوانین سے مستثنیٰ حاصل نہیں کہ اگر ایک ریاستی ملازم کوئی خلاف قانون کام کرے تو اسے ریاستی قوانین کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ منتخب نمائندے ایک عمومی بات سے صرف نظر کرتے نظر آتے ہیں کہ وہ خود کو ریاست سے بالا سمجھتے ہیں اور ریاستی ملازمین کو اپنے ذاتی اور خریدار ملازمین،جو ان کی ہر مشکل وقت میں ،ریاست کو پس پشت ڈال کر،ان کی مدد کے لئے کھڑے ہوں گے۔ 80کی دہائی سے شروع ہونے والا یہ مزاج اب دم توڑ رہا ہے کہ سویلین ریاستی اداروں کے ملازمین،کوئی چیک نہ ہونے کے باعث،حاکم وقت کے ذاتی ملازم بن کررہے ہیںکہ ان کی ترقی و خوشحالی فقط حاکم وقت کی خوشنودی سے مشروط رہی لیکن صرف ایک ادارے کے سربراہ نے جرأت رندانہ کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس سیاسی دخل اندازی کو روکا اور آج عدالت عظمیٰ کسی ڈر اور خوف کے بغیر سیاسی اشرافیہ کے خلاف آئین و قانون کے مطابق فیصلے صادر کر رہی ہے۔ کرپٹ اشرافیہ کو آئین وقانون کے مطابق ہونے والے ان فیصلوں پر بھی اعتراض ہے کہ فیصلے ان کی منشا ء کے مطابق نہیں ہو رہے تو دوسری طرف اشرافیہ کے وہ مذموم مقاصد بھی بروئے کار نہیں آرہے کہ ماضی کی طرح فوج غیر آئینی اقدام کرتے ہوئے انہیں پھر سے مظلوم بنادے۔ اشرافیہ ایک طرف آئین و قانون کی دہائی دیتی ہے تو دوسری طرف فوج کو غیر آئینی کام کے لئے للکارے بھی مارتی ہے،جو اشرافیہ کے کھلے تضاد کو بے نقاب کر رہا ہے کہ کس طرح اپنی لوٹ مار کی دولت بچانے کے لئے ریاست کو داؤ پر لگانے سے بھی گریز نہیں کیا جارہا۔ اگر فوج آپ کی اعلانیہ خواہش پر آئین و قانون کے ساتھ کھڑی ہے تب اشرافیہ اس کو سازش کا نام دے رہی ہے کہ اسے سزا دی نہیں دلوائی جا رہی،ایک معمہ ہے سمجھنے کا اور سمجھانے کا،اس پس منظر میں تو صرف یہی ایک حقیقت نظر آتی ہے کہ آپ ہر صورت اپنی لوٹی ہوئی ’’حلال کمائی ‘‘ کو محفوظ کرنا چاہتے ہیں،اس کے علاوہ اور کچھ نہیں!!!
اب ایسا بھی نہیں کہ صرف سویلین ہی غیر آئینی اقدامات کے رسیا ہیں ،حقیقت تو یہ ہے کہ وطن عزیز میں لیاقت علی خان کے بعد، غیر آئینی اقدامات کی بہتات ہی رہی ہے ،بالخصوص جنرل ایوب کے بعد تو فوج اس غیر آئینی اقدام سے مسلسل کھیلتی رہی ماسوائے بھٹو دور میں کہ اس وقت فوج کا اپنا مورال انتہائی زوال پذیر تھا، سو فوج نے ایک مخصوص عرصے کیلئے سیاست سے کنارہ کشی اختیار کئے رکھی۔ درحقیقت یہی وہ وقت تھا جب اداروں کے درمیان نہ صرف نفرتیں بڑھیں بلکہ اختیار کے نشے نے ان اداروں کو اپنے دائرہ کار سے تجاوز کرنے پر اکسایا/مجبور کیا۔ ریاست کی حیثیت ماں جیسی ہے اور اس کے ادارے آپس میں بھائی ہیں،افسوس مگر اس بات کا ہے کہ بھائیوں کے درمیان بد گمانیوں نے نفرتوں کی جو دیواریں کھڑی کر رکھی ہیں ان کو ذاتی مفادات کے علاوہ بیرونی دشمنوں کی ہلہ شیری کا تڑکہ بھی لگ چکا ہے۔اناؤں اور ’’میں‘‘کے خول میں جکڑے افراد اور اداروں کی اس کھینچا تانی میں نقصان قطعی طور پر ریاست کا ہو رہا ہے جبکہ اقوام عالم میں ہم الگ سے تماشہ بن رہے ہیں۔ ہزار بار تسلیم کہ فوج نے سویلینز کے ساتھ زیادتیاں کی مگر کیا سویلینز نے اپنے ہی ادارے کے خلاف ’’روگ آرمی ‘‘ کے اشتہار نہیں چھپوائے؟ کوئی بھی دودھ کا دھلا نہیں لیکن لمحہ موجود میں کون ہے جو ریاست کے لئے کھڑا ہے اور کون ہے جو ذاتی مفاد کے لئے چیخ و پکار و عوام کوگمراہ کررہا ہے؟کس کی سوچ مثبت ہے اور کون منفی انداز فکر اپنائے ہوئے ہے؟کس کے منفی رویے کی وجہ سے ریاستی ترقی،معکوس ہو رہی ہے؟ فیصلہ آپ پڑ چھوڑتا ہوں، غلطیاں دونوں طرف سے ہیں تو کیا اس کا حل یہ ہے کہ ریاست کو نقصان پہنچتا رہے؟ یقینا نہیں! تو پھر سب اداروں کو اپنی اناؤں اور میں کے خول سے باہر نکل کر آئین و قانون کے سامنے سرنگوں ہونا پڑے گا۔ آج اگر سویلینز کی باری ہے تو کل فوج کی باری بھی آئے مگر شرط صرف یہ ہے کہ آج سویلینز ،منفی سوچ سے باہر نکل کر، حقیقی انصاف کی سولی چڑھ کر ا پنی ساکھ بحال کر لیں (جیسا ذوالفقار علی بھٹو نا انصافی کی بھینٹ چڑھ کر ساکھ بحال کر گئے)، عدالتی کارروائی کو سازش یا کسی کے انتقام کا نام نہ دے کر،اداروں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کر لیں ریاست براہ راست ترقی کی جانب گامزن ہو جائیگی۔