فداک امی و ابی یا رسول اللہ ،محبوب خداکی محبت میں کون ایسا مسلمان ہے جو خود کو نثار کرنے میں جھجکے ، بخدا وہ مسلمان کہلوانے کے لائق بھی نہیں کہ دائرہ اسلام میں داخل ہونے کی دوسری بنیادی شرط ہی یہ ہے کہ انسان اپنی جان،مال ،اولاد سب سے بڑھ کرنبی اکرم کی ذات مبارکہ سے محبت نہ کرے۔آج کی لبرل سوچ رکھنے والوں کے لئے یہ عقیدہ انتہا پسندانہ لگتا ہے اور آزادی اظہاررائے کی آڑ میں ایسے لوگ آقائے نامدار محمد مصطفی کی شان میں زبان درازی کر کے گستاخ ہو جاتے ہیں،اس میں ان کا قصور اتنا ہی ہے کہ وہ مغربی انداز آزادی اظہار رائے سے بری طرح متاثر ہیں ۔ اس حوالے سے ہمارا ان بدتمیزوں سے کیا موازنہ،جو خود اپنے نبی کی تکریم کرنے سے قاصر ہیں اور اسی کی آڑ میں وہ تاجدار کائنات کی ذات مبارکہ پر بھی غلط کہنے یالکھنے سے باز نہیں آتے لیکن مسلمان نہ صرف سرور کونین بلکہ تمام انبیاء کرام کی تکریم کرتے ہیں وہ نہ تو دوسرے انبیاء کی تعظیم میں کمی کے متعلق سوچ سکتے ہیں اور یہ تو کسی بھی صورت ممکن نہیں کہ وہ تاجدار نبوت کی شان اقدس میں کسی قسم کی گستاخی برداشت کریں۔
تاریخ شاہد ہے کہ جب بھی غیر مسلموں نے اپنی گھناؤنی چالیں چلیں،دنیا بھر میں بالعموم اور برصغیر میں بالخصوص نبی کے پروانوں نے اپنی جانوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ختم نبوت پر پہرہ دیا،پھر یہ کیسے ممکن تھا کہ پارلیمنٹ میں ایک مسلمہ طے شدہ حقیقت میں ہیر پھیر پر خدامان و عاشقان رسول خاموش تماشائی بنے رہتے،یہ نا ممکن تھا،ہے اور رہے گا۔ حکومت وقت نے یہ کیسے سوچ لیا کہ وہ قادیانیوں،احمدیوں یا لاہوریوں کو (نعوذ باللہ )آقائے نامدار کے برابر ٹھہرا سکیں گے اور انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہو گا؟کتنی ڈھٹائی سے حکومت نے آئین میں ترمیم کرتے ہوئے نبی اکرم کا نام مبار ک حذف کیا اور قادیانیوں کے لئے (ان کے عقیدہ کے مطابق)ختم نبوت پر یقین رکھنے کی شق ڈال دی تا کہ صرف اپنے بیرونی آقاؤں کی خوشنودی حاصل کی جاسکے۔ ختم نبوت صرف اور صرف نبی اکرم کی ذات سے مشروط ہے ،اس اسم مبارک کو ہٹانے کے بعد کوئی بھی راسخ العقیدہ مسلمان اس کو تسلیم نہیں کر سکتا اور تحریک لبیک یارسول اللہ کو سڑکوں پر لانے کی یہی وجہ بنی۔ گو کہ حکومت وقت نے اس دباؤ کے سامنے ہتھیار تو ڈالے مگر ان گستاخوں کو قرار واقعی سزا دینے کی بجائے ،انہیں بچانے کی کوششوں میں مصروف ہو گئی۔ اس دھرنے میں علمائے کرام نے جو زبان استعمال کی،اس کی حمایت بھی کسی طور نہیں کی جا سکتی ۔ نبی اکرم کی اسوۃ حسنہ اس طرز تخاطب کی اجازت ایک عام انسان کو خلوت میں بھی نہیں دیتی کجا ایسی لچر زبان ختم نبوت پر پہرہ دینے والے،بڑے ہجوم میں کریں،بخدا یہ انداز گفتگو کسی بھی غلام رسول کو زیب نہیں دیتا اور ایسی زبان استعمال کرنے والوں کو اپنے گریبانوں میں جھانکنا چاہئے کہ وہ کس مقصد کے لئے یہاں اکٹھے ہیں اور کیا اس طرح کی زبان حصول مقصد میں فائدہ دے گی یا اسے نقصان پہنچائے گی،کیا آقائے نامدار اس طرز گفتگو کو پسند فرمائیں گے؟
دوسری طرف حکمران جس انداز میں اس سارے معاملے سے نبرد آزما ہیں،وہ انتہائی مضحکہ خیز ہے،روایتی طور طریقوں سے اس کے پیچھے خفیہ ہاتھ تلاش کئے جارہے ہیں، حکومت اسے مقتدرحلقوں یا فوج سے منسوب کر کے گلو خلاصی نہیں کروا سکتی۔ درحقیقت اس میں حکومت کی اپنی نا اہلی شامل ہے کہ ایسے حساس معاملے پر ’’کس کے ‘‘ کہنے پر یہ ترمیم کی گئی ؟کیا اپنے بیرونی آقاؤں کو یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ ہم تو اپنے آقاؤں کی خوشنودی چاہتے ہیں مگر ہماری راہ میں عاشقان رسول حائل ہیں؟ یا اس ترمیم کا مقصد ہنوز فوج کے ملکی معاملات پر گرفت کو ظاہر کرنا تھا؟اگر ایسی ہی بات ہے تب بھی یہ حکومت وقت اور سیاستدانوں کی نااہلی ہے ،موقع پرستوں کی ناکامی ہے کہ وہ دئیے گئے ٹاسک کو پورا نہیں کر سکے۔ دوسری طرف اس ساری صورتحال کو دیکھتے ہوئے آئی ایس پی آر کے ترجمان نے فوج کی خدمات پیش کرتے ہوئے کہا کہ اگر حکومت چاہے تو فوج دھرنے کو ختم کرنے میں مدد کر سکتی ہے،جس پر یار لوگوں کا گمان ہے کہ جب اس کے پیچھے فوج خود موجود ہے تو یقینی طور پر اس کو ختم بھی کرا سکتی ہے۔ تصویر کا دوسرا رخ مگر زیادہ افسوسناک اور گھناؤنا ہے کہ اشرافیہ اس وقت جس مشکل سے دوچار ہے اس میں حقیقتاً وہ اس بات پر تلی ہے کہ اگر وہ اقتدار میں نہیں رہتی تو وہ اس ملک کو (خاکم بدہن)رہنے کے قابل بھی نہیں چھوڑے گی وگرنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ تحریک لبیک کا جائز مطالبہ بھی پورا نہ کیا جاسکے،جو صرف تحریک لبیک کا ہی نہیں پاکستان کے مسلمانوں کا مطالبہ ہے کہ اس ترمیم کے کرداروں کا نہ صرف بے نقاب کیا جائے بلکہ انہیں قرار واقعی سزا دی جائے۔ یہ اسی سوچ کا شاخسانہ ہے کہ اشرافیہ جان بوجھ کر اس واقعے کے کرداروں کو سامنے لانے سے گریزاں ہے کہ ان کرداروںکے پیچھے ڈوریاں ہلانے والے کوئی اور ہیںاور حکومت کو یہ کسی صورت گوارا نہیں کہ ڈوریاں ہلانے والے بے نقاب ہوں ، واقفان حال پر یقین ہیں کہ بعینہ ویسی ہی صورتحال ہے جو ڈان لیکس کے وقت درپیش تھی۔ ڈان لیکس کا معاملہ تو دب گیا تھا کہ اداروں کے مابین تھا مگر یہ معاملہ سنبھلتا نظر نہیں آتا اور آمدہ اطلاعات کے مطابق نہ صرف آپریشن شروع ہو چکا ہے بلکہ لائیو کوریج اس آگ کو مزید ہوا دے رہی ہے۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ برصغیر کے عاشقان رسول اس صورتحال میں خاموش بیٹھے رہیں ،وہ کٹ مریں گے مگر آقائے نامدارکی شان میں گستاخیوں کو کسی صورت برداشت نہیں کریں گے۔ یہاں میں اس امر کا اعادہ کرنا مناسب سمجھتا ہوں کہ نبی اکرم کے پیروکاروں کو ناموس رسالت اور ختم نبوت کے لئے ایسے دھرنوں کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے؟حکومتیں ایسی گھناؤنی حرکتیں کیوں کرتی ہیں؟غیر مسلم کو یہ جرأت کیوں ہوتی ہے؟دنیا میں بسنے والے ایک چوتھائی افراد کے جذبات کو بر انگیختہ کیوں کیا جاتاہے؟ایسی گھٹیا حرکتوں کا ذمہ دار کوئی اور نہیں بلکہ دنیا کی یہی ایک چو تھائی آبادی ہے جس کا کردار کیا اپنے کیا غیر ،ہر کسی کو یہ جرأت فراہم کرتا ہے کہ اس کے جذبات بر انگیختہ کر سکے۔ ہم میں سے کتنے ایسے ہیں جو نبی اکرمکی تعلیمات پر مکمل طور پر عمل پیرا ہیں؟ہم میں کتنے ایسے ہیں جن کے قول و فعل میں تضاد نہیں؟یہ من حیث القوم ہماری کمزوریاں ہیںجو غیروں اور ان کے آلہ کاروں کی قوت بنتی ہیں، دنیا بھر میں ہماری بھد اڑاتی ہیں مگر ہم سنبھلنے کے لئے تیار ہی نہیں۔ قصہ مختصر ! تصویر کے دونوں رخ سامنے ہیں،مسلم لیگ ن کے متوالے اسے فوج کی سازش قرار دیتے رہیں جبکہ تحریک لبیک والے اپنے تمام تر تضادات اور بد زبانی کے باوجود اسے ختم نبوت پر پہرہ کہتے رہیں۔