صبح سویرے اخبار دیکھنے پر ایک دھچکا سا لگا۔ عجیب سی کیفیت سے دوچار تھا کہ یااﷲ! اپنے آپ کو بانیٔ پاکستان کے جانشین کہلانے والے، یا جنہیں عرف عام میں اردو بولنے والے یا مہاجر کہا جاتا ہے، آخر کب تک مشکلات میں گھِرے رہیں گے۔ بات ہی کچھ ایسی تھی۔ اُن کی واحد نمائندہ جماعت متحدہ قومی موومنٹ دھڑوں میں تقسیم ہو ہی چکی تھی، اوپر سے جس نے 22 اگست 2016 کو بانی جماعت کی پاکستان مخالف تقریر کے بعد بانیٔ تحریک سے سارے رشتے ناتے توڑ لئے تھے اور ایم کیو ایم پاکستان کے نام سے تکالیف برداشت کرتی رہی، نے یکایک اعلان کردیا کہ چونکہ اُسکے ارکان خاص طور پر پارلیمان اور صوبائی اسمبلیوں کے ارکان پر پارٹی بدلنے کیلئے دبائو ڈالا جارہا ہے، اس لئے پارٹی نے اپنے تمام عہدیداروں اور پارلیمان کے ارکان سے استعفے لے لئے ہیں اور اجتماعی طور پر نشستوں اور ذمے داریوں سے مستعفی ہوجائیں گے۔
میری نظر میں یہ ایک انتہائی احمقانہ اقدام تھا۔ اس لئے کہ اس طرح تو سندھ اسمبلی کا ہر رکن کروڑوںروپے کمانے کے خواب دیکھنے لگے گا۔ ایم کیو ایم کا ایک جمعہ بازار لگ جائے گا۔ صوبائی اسمبلیوں کے ارکان (جن کی تعداد 50 کے لگ بھگ ہے) اپنے سینے پر قیمت کا طوق لٹکائے ناچتے پھریں گے کہ کون اُن کی کتنی قیمت لگاتا ہے۔ ان میں ہر ایک بکنے کیلئے تیار ہوجائے گا۔ ظاہر ہے پیسہ کس کو بُرا لگتا ہے۔ آج کی دُنیا میں اصول گئے بھاڑ میں، پیسہ ہی سب کچھ ہے۔
میں پچھلے کئی دنوں سے ایک عجیب سی اضطراب کی کیفیت میں تھا کہ آخر مہاجروں کا کیا بنے گا۔ اگر ایم کیو ایم اسی طرح منقسم رہی اور آپس میں دست و گریباں رہی تو ہندوستان سے ہجرت کرکے اور اپنے آبا ئو اجداد کی قبروں اور جائیدادوں کو چھوڑ کر ایک نئے مستقبل کی تلاش میں پاکستان آنے والوں کی اولادوں کا آخر کیا بنے گا۔ کیا وہ ایک بار پھر دربدر کی ٹھوکریں کھاتے پھریں گے؟
پیپلز پارٹی تو نسلی بنیاد پر یقین رکھتی ہے۔ وہ کراچی پر قبضہ جمانے کے خواب دیکھ رہی ہے، کہ اب 2018 میں ہونیوالے انتخابات میں وہ کراچی کی 20 قومی اسمبلی اور 42 صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر قابض ہونے کی کوشش کریگی۔ اور شاید یہ قوی اُمید لگائے بیٹھی بھی تھی۔ عمران خان کی تحریک انصاف، جماعت اسلامی بھی حصّے بخرے کرنے کی تیاریوں میں مصروف تھیں۔ اگر ایسا ہوجاتا، جس کے مواقع نظر آرہے تھے، تو پھر ان مہاجروں یا اُردو بولنے والوں کا کون پرسان حال ہوتا۔
اس وقت بھی اُن پر روزگار کے دروازے بند ہیں۔سندھ کے 30 سیکریٹریز یا انتظامیہ کے ذمے داروں میں اردو بولنے والے آٹے میں نمک کے برابر سیکریٹریز رہ گئے ہیں، یہی حال پولیس کا ہے۔ آئی جی، ڈی آئی جی، سپرنٹنڈنٹ پولیس، یا تھانے داروں میں مہاجرین کو یکسر نظرانداز کردیا گیا ہے۔ پچھلے 9سال سے یہ کھیل تماشا جاری ہے اور پردہ گرتا ہوا نظر بھی نہیں آتا، تو پھر ہمارے بچّے اسکولز، کالجز، یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل ہوکر آخر کہاں جائیں گے۔ نسل پرستی پاکستان کی بنیادیں ہلارہی ہے، لیکن آصف زرداری، بلاول بھٹو یا پیپلز پارٹی کو اس کی ذرّہ برابر بھی پروا نہیں، وہ اپنے ہی پلان پر عمل پیرا نظر آتے ہیں۔
مثل مشہور ہے کہ مدعی لاکھ بُرا چاہے تو کیا ہوتا ہے، وہی ہوتا ہے جو منظورِ خدا ہوتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ شعر بھی یہاں صادق آتا ہے کہ فانوس بن کے جس کی حفاظت ہوا کرے، وہ شمع کیا بجھے جسے روشن خدا کرے۔ بندہ کچھ چاہتا ہے قدرت کے اپنے ہی منصوبے ہوتے ہیں جو صرف بندوں کی بھلائی اور فلاح و بہبود کیلئے ہوتے ہیں۔
یہ سارا پس منظر اس لئے پیش کیا کہ میرا دل جو صبح سویرے اخبارات دیکھ کر بجھ سا گیا، اب بلیوں اُچھل رہا ہے۔ خبر ہی ایسی تھی کہ جی چاہتا ہے کہ بس ناچتا پھروں۔ خوشیوں نے ایک بار پھر ہمیں آگھیرا ہے، اﷲ نے ہماری سن لی ہے، آخر ظلم کا دریا کب تک بہے گا۔ اگر خدائے بزرگ و برتر حضرت موسیٰؑ کو فرعون کے لشکر سے سمندر پھاڑ کر بچا سکتا ہے، مصیبتوں میں گھرے ہوئے اپنے بندوں کو وہ کیسے بھول جائے گا، ہو ہی نہیں سکتا، اُس کی شانِ کریمی کی بات ہی اور ہے۔
ٹی وی پر بدھ کی شام جو خوشخبری سنائی گئی، کہ ایم کیو ایم کے 2بڑے دھڑے، ایم کیو ایم پاکستان اور پاک سرزمین پارٹی نے آپس میں اتحاد کا فیصلہ کرلیا ہے، اس سے اچھی بات اور کوئی ہوسکتی ہے؟
دوسری طرف جب میری بات حقیقی گروپ کے سربراہ آفاق احمد (جو حُسن اتفاق سے میرے پڑوسی بھی ہیں) سے ٹیلی فون پر ہوئی تو اُنہوں نے بھی خوشی کا اظہار کیا۔ ایم کیو ایم پاکستان اور پاک سرزمین پارٹی کے سربراہان اپنے اپنے ذمے داروں سے علیحدہ علیحدہ تبادلۂ خیالات کرنے کے بعد ہوسکتا ہے ایک دوسرے میں ضم ہونے کی بات تو شاید نہ کریں، لیکن ایک احساس دونوں میں ہی نمایاں تھا کہ اتحاد کرلیں اور مل جُل کر 2018 کے انتخابات میں حصّہ لیں۔
میں تو شروع سے ہی اس بات کا حامی تھا اور میری جب بھی مصطفیٰ کمال (جو میرے صوبائی کابینہ کے ساتھی تھے اور میئر بننے کے بعد بھی ہماری دوستی بھرپور طریقے سے جاری تھی) سے بات ہوئی، میں نے اپنا یہ خیال پیش کیا۔ خیر شعبۂ نشر و اشاعت نے اپنے ہی خاص انداز میں یہ بات اُڑانی شروع کردی کہ دونوں کا انضمام ہونے والا ہے، مطلب دونوں ایک دوسرے میں ضم ہونے والے ہیں، لیکن ایم کیو ایم (پاکستان) کی صفّ اوّل کی لیڈر نسرین جلیل نے وضاحت کردی کہ الائنس یا الحاق ہوگا، ایک دوسرے میں ضم ہوکر ایک نئی پارٹی نہیں تشکیل دی جائیگی۔
اُن کے مطابق ڈاکٹر فاروق ستار اور مصطفیٰ کمال میں کافی عرصے سے رابطہ تھا اور ایک دوسرے کے نقطۂ نظر کو سمجھنے میں مصروف تھے، بالآخر یہ خوش گوار اعلان ہو ہی گیا۔ اگر الحاق یا الائنس بھی بنے تو بھی مخالفین (جو کراچی کی بندربانٹ کے خواب دیکھ رہے تھے) پر تو گھڑوں پانی گر گیا ہوگا، ساری اُمیدیں خاک میں مل گئی ہوں گی۔ ایم کیو ایم کے دھڑے اگر متحد ہوجائیں اور نشستوں پر اتفاق ہوجائے تو پھر کراچی کی کایا یک دم پلٹ جائے گی۔
کراچی اور حیدرآباد، بلکہ میرپورخاص اور کسی حد تک سکھر اور نواب شاہ میں بھی جہاں اردو اسپیکنگ آباد ہیں، صرف اور صرف ایم کیو ایم، پی ایس پی کو ہی ووٹ ڈالیں گے، یہ بات تو طے شدہ ہے۔وجہ صاف ہے۔پیپلز پارٹی لسانی بنیادوں پر برسراقتدار رہنا چاہتی ہے، بلکہ 9سال سے رہ رہی ہے، تو پھر اردو بولنے والے اتنے بے وقوف تو نہیں کہ گھر کے ہی چراغ سے گھر کو آگ لگادیں۔
صبح جس بات سے مجھے تکلیف ہوئی تھی وہ انگریزی کے ایک بہت ہی موقر اخبار کے صفحۂ اوّل پر ایک تصویر تھی، جس میں ایم کیو ایم کی سینیٹر خوش بخت صاحبہ آصف زرداری کے ساتھ بیٹھی ہوئی دِکھائی دیں۔ دل مسوس کر رہ گیا کیونکہ اُن کے بارے میں مشہور ہے کہ دونوں میاں بیوی، صرف اور صرف خوشامدی اور ذاتی مفادات میں ہی دلچسپی رکھتے ہیںلیکن نسرین جلیل نے یہ بات صاف کردی کہ خوش بخت چونکہ پاکستان خواتین ہاکی ایسوسی ایشن کی صدر ہیں، اس لئے زرداری کے پاس کھیل کے میدان اور آسٹروٹرف حاصل کرنے کے واسطے گئی تھیں کہ خواتین ہاکی کو فروغ دیا جاسکے۔
اب تو پاکستانی خواتین میں ہاکی بہت مقبول ہوچکی ہے اور پاکستان بین الاقوامی مقابلوں میں بھرپور طور پر حصّہ لیتا ہے، دل کو سکون ہوا کہ خوش بخت اپنی قیمت لگانے نہیں گئی تھیںبلکہ ایک اعلیٰ مقصد کے حصول کی تلاش میں سرگرداں تھیں۔ خوش آئند بات ہے اور سراہے جانے کے لائق۔
آفاق احمد سے رابطہ کرنے پر پتا چلا کہ وہ بھی ایم کیو ایم پاکستان اور پاک سرزمین پارٹی کے درمیان رابطے سے خوش ہیں، آخر سب کو ہی مہاجروں کی بہبود کا خیال ہے، یہ بذات خود اہم ہے۔اﷲ کرے ایسا ہی ہو، بلکہ جب تک یہ سطور آپ تک پہنچیں گی، کوئی بہت اچھی خبر سامنے آچکی ہوگی۔
اﷲ تعالیٰ، اپنے بندوں کو تکلیف میں نہیں دیکھ سکتا۔ وہ کیسے ایک بہت بڑے طبقے کو پریشانی میں مبتلا دیکھ سکے گا، اُس کی رحمت کی انتہا کوئی نہیں، یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے۔ یہ قدرت کی کاریگری ہے جناب، کہ ذرّے کو چمکادے۔