بیچارے شریف برادران کی آزمائشیں
صلاح الدین حیدر
اُردو کا ایک مشہور شعر ہے کہ مشکلیں اتنی پڑیں کہ آسان ہوگئیں۔ یہی کچھ حال شریف برادران کا ہے' بے چاروں کی آزمائشیں ہیں کہ ختم ہونے کو ہی نہیں آتیں۔ غموں کے پہاڑ ہیں کہ ٹوٹے پڑ رہے ہیں یکے بعد دیگرے۔ ایک مصیبت سے جان نہیں چھوٹتی کہ دوسری آن پڑتی ہے اور وہ بھی بلائے ناگہانی کی طرح۔ پانامہ لیکس کا سلسلہ چل ہی رہا تھا کہ حدیبیہ پیپرز مِل کی مصیبت آن پڑی۔لگتا تھا شاید کچھ وقفہ سکون کا مل جائے لیکن اب لاہور ماڈل ٹائون کا قصّہ (جس میں 14 معصوم جانیں ضائع ہوئی تھیں) گلے آپڑا۔ 2014 میں ہونے والی اس دردناک کہانی نے پھر سے قدم پکڑ لئے، اس بار تو نواز شریف کے چھوٹے بھائی شہباز شریف پر چھری گری اور وہ بھی خطرناک انداز میں۔
3 سال پہلے لاہور کے قدیم علاقے ماڈل ٹائون میں ڈاکٹر طاہر القادری کی درس گاہ منہاج القرآن میں ہونے والا قصّہ پھر سے تازہ دم ہوگیا۔ لگتا تو یہی تھا کہ اس سانحے میں مارے جانیوالے 14 افراد (جن میں عورتیں اور بچّے بھی شامل تھے) قصّۂ پارینہ ہوگئے۔ عام تاثر تو یہی تھا کہ وقت کے مہیب سایوں میں وہ ساری کہانی کہیں دُور بہت دُور دفن ہوچکی ہے لیکن یہ کمبخت تاریخ بھی بڑی ظالم چیز ہے،برسوں بعد بھی گڑے مُردے قبر سے کھود کر نکال لاتی ہے۔ زیادہ تمہید میں کیوں جائیے، اتنا ہی کہہ دینا کافی ہے کہ لاہور ہائیکورٹ نے ہفتے کے اوائل میں ماڈل ٹائون کے حادثے کی رپورٹ (جو اعلیٰ عدالت کے جج نجفی نے بڑی تگ و دو کے بعد مکمل کی تھی) شائع کرنے کا حکم صادر فرمادیا۔ ارباب اقتدار پر یہ آفت کم نہیں تھی۔ اس ضخیم رپورٹ میں کسی افسر یا اہلکار کا نام تو نہیں لکھا گیا، لیکن پنجاب کے وزیر قانون (جو اُس وقت صوبے کے وزیر داخلہ تھے) پر یہ الزام بھرپور طور پر لگ گیا کہ اُنہوں نے ہی پولیس کو غیر مسلح، بلکہ بے سروپا لوگوں (جو منہاج القرآن کے دفتر پر احتجاج کررہے تھے) پر لاٹھی چارج اور گولی چلانے کا حکم دیا۔ وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف اُس وقت کہیں کسی اجلاس کی صدارت کررہے تھے۔ اُن کو سیکریٹری کے ذریعے سے پتا چلا، لیکن کورٹ کے فیصلے کے مطابق جہاں وزیر داخلہ کا آرڈر غلط تھا، وہیں وزیراعلیٰ نے بھی لاپروائی سے کام لیا۔ اُنہوں نے پولیس کو پیچھے ہٹنے کا کوئی حکم نہیں دیا جو کہ دیدینا چاہیے تھا۔ عدالتی جج نے یہ بات بڑے افسوس اور صدمے کے ساتھ لکھی ہے کہ کسی نے بھی اپنی ذمے داری کا احساس نہیں کیا، جس کی وجہ سے کئی لوگ موت کی آغوش میں چلے گئے۔خون خرابہ ہونے پر تو حکومتیں اُلٹ جاتی ہیں، کم از کم ذمے داری قبول کرتے ہوئے وزرا ء یا افسران مستعفی ہوجاتے ہیں لیکن اس معاملے میں تو آوے کا آوا ہی دوسرا ہے۔ فاضل جج نے صاف طور پر الزام رانا ثناء اﷲ پر رکھا کہ اُنہوں نے کس قانون کے تحت پولیس کو گولی چلانے کا حکم دیا، طاقت کے نشے میں دھت ہونا کوئی اچھی بات نہیں۔
دراصل بات یہ ہے کہ کئی عدالتیں بہت الزام اُٹھا چکی ہیں اور اب دامن میں لگے دھبوں کو دھونے کی کاوشوں میں مصروف ہیں، کل تاریخ یہ لکھے کہ منصفوں نے جانبداری سے کام لیا۔ یہی بات شریف برادران کی سمجھ میں نہیں آتی۔ وہ آج بھی صدیوں پیچھے کی سوچ میں مبتلا ہیں جس کی وجہ سے مسائل گہرے ہوتے رہتے ہیں۔ حکمراں اگر انصاف سے کام لیں تو کسی کو بھی شکایت نہ ہو ۔ یہ سب کچھ دیکھ کر رونے کو دل کرتا ہے:
مجھ سا کوئی جہاں میں نادان بھی نہ ہو
کرکے جو عشق کہتا ہے نقصان بھی نہ ہو
یہ سادگی نہیں تو اور کیا ہے؟ طرفہ تماشا یہ کہ بجائے شرمندہ ہونے کے رانا ثناء اﷲ (جو پنجاب کے وزیر داخلہ کے بجائے اب وزیر قانون ہیں) نے انتہائی ڈھٹائی سے یہ رپورٹ ردّ کردی۔ فرمایا کہ رپورٹ سراسر غلطیوں اور ابہام کا مجموعہ ہے۔ جب کوئی کسی منصف کو دھتکار دے تو معاشرہ شرم کے مارے پانی پانی ہوجاتا ہے، لیکن پاکستان میں ڈھٹائی، ہٹ دھرمی ہی قانونِ وقت ہے، جس کی لاٹھی اُس کی بھینس۔ پھر وہاں انصاف کا کیا ذکر۔ کسی شاعر نے صحیح کہا تھا کہ:
ہوتا نہیں ہے تجھ پر کسی بات کا اثر
لگتا ہے تیرے روپ میں پتھر ملا مجھے
دوسری طرف نواز شریف عدالت سے اجازت لے کر لندن چلے گئے کہ اہلیہ کی تیمارداری کی جائے لیکن لندن پہنچتے ہی زہر سے بھرے ہوئے جملے دوبارہ سپریم کورٹ کے ججوں کے متعلق ادا کردیے۔ اُنہوں نے کہا کہ ’’کروڑوں عوام نے جسے اپنے ووٹوں سے چُنا ہو، ملک کا وزیراعظم بنایا ہو، اُسے صرف 5 لوگوں نے نااہل قرار دے دیا‘‘ ۔رسّی جل گئی، لیکن بل نہیں گیا۔ نواز شریف کو سپریم کورٹ نے ایک تفصیلی بیان کے ذریعے یاد بھی دلایا تھا کہ اُنہوں نے اربوں کی جائیداد ملک اور ملک سے باہر بنائی، لیکن پیسے کہاں سے آئے؟ یہ آج تک بتلانے سے قاصر ہیں تو پھر نیب کی انکوائری کا انتظار کریں، مقدمہ تو چلے گا، جواب تو دینا پڑے گا۔ یہ خنّاس اُنکے سر سے نکلنے کیلئے تیار نہیں۔ خود ایک آمر کی گود میں پرورش پائی۔جنرل ضیاء الحق کی پرستاری کرتے رہے۔ اُنکے انتقال کے بعد بھی اُنکے گن گاتے رہے، اب اُنہیں ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی بھی رُلا دیتی ہے اور مولوی تمیز الدین کو اسپیکرشپ سے ہٹائے جانے پر بھی ملال ہوتا ہے۔ کل تک تو اُنہیں یہ سب کچھ یاد نہیں آتا تھا۔ آج وہ شہیدِ جمہوریت بن رہے ہیں، میری کسی سے نہیں بنتی باقی سب کے ساتھ کیا ہوا؟ کاش جب آپ وزیراعظم تھے، اُس وقت بھی پُرانی باتوں پر تحقیقات کروا ڈالتے تو آج آپ کو یہ طعنے نہ سننے پڑتے۔
کوشش تو نواز شریف نے کی آصف زرداری سے دوبارہ دوستی کرلی جائے لیکن جہاں شریف برادران کا سورج غروب ہونے کو ہے، وہاں آصف زرداری ایسی نادانی نہیں کرینگے کہ میدان کھلا دیکھ کر بھی الیکشن سے فائدہ اُٹھانے کی نہ سوچیں۔ اسلام آباد میں پیپلز پارٹی کی 50ویں سالگرہ پر دھواں دھار تقریر کرتے ہوئے زرداری نے صاف طور پر کہہ دیا کہ2بار تو آپ کو ڈوبنے سے بچایا، لیکن اب تو خواہش ہے کہ آپ عبوری حکومت بننے سے پہلے ہی چلے جائیں۔ ملاقات تو درکنار اُنہوں نے ہری جھنڈی دِکھادی۔ اب ہم آپ کو نہیں بچائیں گے، اب اپنی جمہوریت لائینگے۔ زرداری کا جواب سیدھا اور غیر مبہم تھا۔ دوسری طرف بلاول بھٹو نے کہا کہ مذہب کے نام پر سیاست نہ کی جائے۔
یہ ہیں وہ چند گزارشات جن کے ذریعے قارئین کو حالات حاضرہ سے متعارف کرانے کی کوشش کی تھی،کہاں تک کامیاب ہوا، اس کا جواب آپ دیں گے۔