سعید محمد بن زقر ۔ المدینہ
ماہرین اقتصاد کے یہاں یہ حقیقت مسلم مانی جاتی ہے کہ صنعتی ممالک کی 60فیصد قومی پیداوار صارفین کی جانب سے آتی ہے۔ تنخواہیں اچھی ہوتی ہیں تو لوگ ہاتھ کھول کر خرچ کرتے ہیں۔ اس بناء پر محنت کشوں کی تنظیموں میں محنتانوں اور منافع کی شرح میں اضافے کو جوڑے جانے کا سلسلہ ہمیشہ پایا گیا۔ اس پہلو کا مغربی ممالک کی مزدور یونینوں سے بھی گہرا رشتہ ہے۔
اس پیش منظر کا غیر ملکی ملازمین کی خدمات سے استفادے کی ا سکیموں اور بے روزگاری کو قابوکرنے والی سعودائزیشن کی مطلوبہ شرح کے حصول سے گہرا رشتہ پایا جاتا ہے۔ صورتحال کا تقاضا ہے کہ حکومتیں ایسی حکمت عملی ترتیب دیں جن سے قومی افرادی قوت مضبوط ہو۔ اسے ترجیح حاصل ہو۔ملازمین کو اتنی تنخواہ دی جائے کہ وہ ہاتھ کھول کر خرچ کرسکیں۔معاملہ کچھ ایسا ہے کہ 8ویں عشرے کے دوران مغربی ممالک میں بنیادی تبدیلیاں دیکھی گئیں۔ امریکہ، برطانیہ اور جرمنی وغیرہ جیسی مغربی ممالک کی حکومتوں نے اوپن ڈور پالیسی اختیار کی۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد ہر ایک کو ملازمت فراہم کرنے کی پالیسی سے کنارہ کشی اختیار کی گئی۔ اس کی وجہ سے مذکورہ ممالک میں تدریجی بے روزگاری آئی۔ اسکا تناسب ایک تا2فیصد تک ہوگیا۔
یہاں یہ یاد دہانی بھی مناسب معلوم ہوتی ہے کہ اس تبدیلی سے قبل مزدور یونینوں کا بڑا بول بالا تھا ۔ وہ صف اول کے اقتصادی ممالک میں بات چیت کے حوالے سے طاقتور فریق شمار کی جاتی تھیں۔ مزدور یونینوں نے مزدوروں کے حقوق کا تحفظ، تنخواہوں کو بڑھتے ہوئے منافع سے جوڑنے کے امور خوب جم کر ابھارے۔ 30فیصد منافع مزدوروں کی تنخواہوں اور 70فیصد مالکان کے حصے میں رکھنے کی سودے بازیاں ہوئیں۔
آخر میں اوپن ڈور پالیسی اپنانے والی حکومتیں مزدور یونینوں کی شان و شوکت ختم کرنے میں کامیاب ہوگئیں۔ انکی کامیابی تو ہوئی تاہم اقتصادی شکست بھی ساتھ ہی آگئی۔ اقتصادی شکست محنتانوں پر اثر انداز ہوئی۔ صارفین کے اشاریئے گرنے لگے۔ جرمنی جیسے ملک میں بیشتر نوجوان بے روزگار ہوگئے۔
عجیب بات یہ ہے کہ یہ بے روزگاری ایسے وقت میںآئی جب وہ ملک طاقتور اور اسکی معیشت مضبوط تھی جرمنی میں تنخواہوں میں اضافے کی شرح معمولی ہوگئی۔ اس رجحان سے دولت مالکا ن کے قبضے میں جانے کی سبیل پیدا ہوئی۔ مزدوروں کو اپنی ضرورتیں پوری کرنے کیلئے قرضوں کا سہارا لینا پڑا۔ اصولی بات یہ ہے کہ جب جب کوئی شخص قرضہ لیتا ہے او راسے ادا نہیں کرپاتا یا ادائیگی میں دشواری پیش آتی ہے تو اسکا اثر شرح نمو پر پڑتا ہے اور معاشی نظام بحرانوں سے دوچار ہونے لگتا ہے۔ مستحکم اقتصادی پوزیشن برقرار رکھنے میں مسائل پیدا ہوتے ہیں۔
غیر ملکیوں کی جگہ سعودی ملازمین کی تقرری جائز اور مطلوبہ ہدف ہے تاہم اس ہدف کے حصول کیلئے غیر ملکی ملازمین کی لاگت بڑھا دینا سنگین صورتحال کا باعث بنے گا۔ غیر ملکی ملازمین کی لاگت بڑھا دینا آسان ہے۔ یہ حقیقی ہدف کے حصول کےلئے ایک طریقہ کار ہے۔ بہتر حکمت عملی یہ ہوگی کہ بے روزگاری کی شرح کم کرنے کیلئے سرکاری ادارہ ملازمین کی پشت کو مضبوط کرے اور اسے مزدوروںاور کام دینے والوں کے درمیان متوازن ماحول پیدا کرنے پر توجہ مرکوز کرے۔ ملازموں کو ملازمت دینے والوں کے ساتھ معاملات طے کرنے کی استطاعت اور حوصلہ بخشے۔
عالمی اقتصادی تجربات کے تاریخی تقابلی مطالعے سے یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ جس ملک میں ملازمت لینے اور دینے والوں کے درمیان گفت و شنید کے عناصر مضبوط ہوتے ہیں وہاں تنخواہیں بڑھتی ہیں۔ وہاں منافع میں اضافہ ہوتا ہے اور اس طرح ملکی معیشت کو تقویت نصیب ہوتی ہے۔ صنعتی ممالک کی 60فیصد قومی پیداوار مصنوعات کے راستے سے نہیں بلکہ صارفین کے ذریعے ملتی ہے۔
مزدوروں کو گفت و شنید کی طاقت دینا موثر اقتصادی وسیلہ ہے۔ علاوہ ازیں ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدایت دی ہے کہ مزدوروں کو اسکی مزدوری اسکا پسینہ خشک ہونے سے قبل دیدو۔ اس کا مطلب صرف اتنا ہی نہیں کہ مزدور کو مقررہ وقت پر اسکی تنخواہ دیدی جائے اسکا مطلب یہ بھی ہے کہ صحیح وقت پر صحیح تنخواہ دی جائے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭