بیت المقدس .... قربانی کا بکرا
سلطان عبدالعزیز العنقری۔ المدینہ
ازمنہ وسطی میں گرجا گھر اور اس کے ارباب نے ”مغفرت نامے“ جاری کرنے کیلئے یورپی ممالک میں دین کا بیجا استعمال کیا۔ گرجا گھر کے ارباب ایک طرح سے لوگوں کی قسمت اورسیاہ و سفید کے مالک بن گئے تھے۔ یہ لوگ جس چیز کو چاہتے حلال قرار دیتے اور جسے چاہتے حرام بتا دیتے۔ من مانی کرتے، مرضی سے حکم جاری کرتے اور خود پسندی کے تحت کسی بھی کام سے لوگوں کو منع کردیتے۔ گرجا گھر کے ارباب، دین کے نام پر بے قصور لوگوں کا خون بھی بہا دیتے۔ اس منظر نامے نے یورپی ممالک کو پسماندگی کے حوالے کردیا۔ نئے ہزارے کی شروعات سے 3عشرے قبل اسلام کی نام لیوا جماعتوں نے بھی وہی طور طریقے اختیار کرلئے جو ازمنہ وسطی میں یورپی ممالک کے گرجا گھر وں کے ارباب نے اپنائے تھے۔ تب سے اب تک تاریخ خود کو دہرا رہی ہے۔ قدیم استعماری طاقتیں ہماری اس کمزوری کا فائدہ اٹھا رہی ہیں۔ عصر حاضر کے استعمار پسند نئی شکل اور نئے انداز میں استعمار کے پنجے گاڑنے کے لئے کوشاںہیں۔ عرب ممالک اور مسلم دنیا کے خزانے خالی کرائے جارہے ہیں۔طرفہ تماشا یہ ہے کہ عرب اور مسلم معاشروں کے بعض فرزند نئی استعماری طاقتوں کو اپنے راج کی جڑیں گہری کرنے میں تعاون دے رہے ہیں۔
اگر مسلمان اور عرب تفرقہ و انتشار میں مبتلا نہ ہوتے تو بیت المقدس، سلامتی کونسل اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے مباحثوں کا موضوع نہ بنتا۔ اگر مسلما ن اضطراب او رانتشار میں گرفتار نہ ہوتے تو 1948 ءسے لیکر تاحال فلسطین پر اسرائیل کا ناجائز قبضہ برقرار نہ رہتا اور القدس سے متعلق قرارداد پر سلامتی کونسل کے بعض ارکان سیاسی اشتعال انگیزی کا مظاہرہ نہ کرتے۔تکلیف دہ حقیقت یہ ہے کہ مشرق و مغرب کی دشمن طاقتیں مختلف ناموں، عنوانوں سے وظیفہ خوار دہشتگردوں کو عربوں او رمسلمانوں پر مسلط کئے ہوئے ہیں۔ القاعدہ ، داعش،الحشد الشعبی، النصرہ محاذ، الشیطان پارٹی، حوثی، صومالیہ کی تحریک الشباب، بن غازی کے دفاعی دستے اور مجلس شوریٰ کے انقلابی گروپ وغیرہ قائم نہ ہوتے۔ یہ ساری جماعتیں الاخوان کے بطن سے نکلی ہیں۔ انکا مقصدعراق، شام، لبنان ، صومالیہ ، لیبیا اور یمن وغیرہ ممالک میں بدامنی پھیلانے کے سوا کچھ نہیں۔ ان سب کو تہران اور قطر کی تائید و حمایت حاصل ہے۔ قطر کو جلد یا بدیر مذکورہ جماعتوں کی آگ میں جلنا پڑیگا۔ ایران نے مذکورہ جماعتوں کو استعمال کیا۔ مغربی و مشرقی دنیاﺅں کے دشمنوں نے ان سے فائدہ اٹھایا۔ ایرانی ملاﺅ ں نے کبھی کبھی فرقہ واریت اور کبھی القدس کو آزاد کرانے کے نام پر اپنا انقلاب برآمدکرنے کیلئے مذکورہ جماعتوں کو استعمال کیا۔ ایران اور قطر جیسے باغی ممالک ترکی کیساتھ اتحاد قائم کررہے ہیں اور ترکی کو اس خندق کی جانب دھکیل رہے ہیں جس میں اسے گرنا نہیں چاہئے۔
القدس اس وقت تک اسرائیل کے ناجائز قبضے سے آزاد نہیں ہوگا جب تک فلسطینی ایک دوسرے سے برسرپیکار رہیں گے۔ القدس اس وقت تک اسرائیل ہی کے قبضے میں رہیگا تاوقتیکہ القدس مسئلے کے بعض تاجر دوحہ کے ہوٹلوں ، شاندار بنگلوں ، تہران اور بیروت کے پرآسائش مراکز میں آرام دہ زندگی گزارتے رہیں گے۔ القدس اس وقت تک آزاد نہیں ہوگا جب تک کہ غزہ اور غرب اردن میں ریاستیں قائم کرکے القدس قضیے کی تجارت ہوتی رہیگی۔ فلسطینیوں کے مدد گار عرب ممالک کی ذمہ داری ہے کہ وہ فلسطینیوں کو مدد دینے کی شرط یہ لگائیں کہ آپ لوگ پہلے اپنا تفرقہ و انتشار ختم کرو تب مدد ملے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ فلسطینیوں کے ٹکراﺅ اور انتشار نے عربوں کو بڑے زخم دیئے ہیں۔ فلسطینی عوام او رعرب عوام کے درمیان نفرت اور عداوت کے جذبات بھی ابھرنے لگے ہیں۔ ایران اور قطر ہی اس ساری صورتحال کے ذمہ دار ہیں۔ قطر نے اپنے یہاں ترک فوجی اڈہ قائم کرکے ماضی کے تمام تلخ حقائق کو پس پشت ڈالدیا۔ اہل قطر بھول گئے کہ سلطنت عثمانیہ کے فرمانروا فخری بادشاہ تحفظ کے نام پر مدینہ منورہ سے اسلامی نوادرچوری کرکے ترکی لے گئے تھے۔ ترک صدر رجب طیب اردگان یہی کہہ رہے ہیں کہ اسلامی نوادر تحفظ کے جذبے سے منتقل کئے گئے تھے۔ اگر بات یہی ہے تو وہ حرمین شریفین کے نوادر اب سعودی عرب کو واپس کیوں نہیں کردیتے۔ حقیقت یہی ہے کہ مذکورہ نوادر مدینہ منورہ کو واپس نہیں ہونگے اور ترکی اپنی سیاحت کو چمکانے کیلئے ترکی کے عجائب گھروں میں اسلامی نوادر سجائے رکھیں گے۔ اس سے ترکی کو اربوں ڈالر کی آمدنی ہورہی ہے۔ تمام مسلمان اس وقت تفرقہ کا شکار ہیں۔ اس وقت تک رہیں گے تاوقتیکہ ہر کوئی اپنے مفاد کو دیکھے گا۔ القدس ہی قربانی کا بکرا بنتا رہیگا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭