عبداللہ المزھر۔ مکہ
ایران میں جو کچھ ہورہا ہے مجھے نہیں لگتا کہ اس سے وہاں کا نظام ِحکومت تبدیل ہوگا۔ ایرانی حکمراں بیرون ملک تک اپنے مخالفین کو ٹھکانے لگانے میں کمال حاصل کئے ہوئے ہیں۔
ممکن ہے ایرانی نظام کی سوچ کا طریقہ کار بدل جائے۔یہ الگ بات ہے کہ یہ آسان کام نہیں۔ وجہ یہ ہے کہ ایرانی حکمراں کھلم کھلا ”تخریب کاری“کی جدوجہد کا ٰپختہ عقیدہ رکھتے ہیں۔ اسے چھپاتے نہیں۔ ایرانی حکمراں جو کچھ کررہے ہیں جتنا کچھ کہہ رہے ہیں اور پوری دنیا کو جتنا کچھ برآمد کررہے ہیں وہ پوری دنیا میں تباہی و بربادی عام کرنا ہے۔ انکا عقیدہ ہے کہ جب تک سارے جہاں میں فساد برپا نہیں ہوگا تب تک مہدی منتظر نمودار نہیں ہونگے۔
دنیا بھر کے لوگ رواداری، چشم پوشی اور ضبط و تحمل سے کام لیتے ہیں لیکن اگر اسکے پاس کھونے کیلئے کچھ نہ رہ جائے تو ایسی صورت میں وہ دنیا کی خطرناک ترین مخلوق میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ یہ ضابطہ کسی ایک ملک تک محدود نہیں۔ کسی بھی ملک کے شہری اپنی ریاست کے ایٹمی طاقت بننے ، فوجی پوزیشن مضبوط بنالینے، فٹبال ٹیم کے جیت جانے پر فخر و ناز کا اظہار کرتے ہیں لیکن خوشی کا یہ نشہ ایسی صورت میں برقرا رنہیں رہتا جب یہ سب کچھ اس کی یومیہ خوراک کے حساب پر ہونے لگے۔ اسکی قیمت اسے اپنی زندگی ، اپنے مستقبل اور اپنے اہل و عیال کے آنے والے کل کو تباہ کرنے کی صورت میں ادا کرنی پڑے۔
ایران کے لوگ بھی دنیا کے دیگر لوگوں کی طرح ہیں۔ جب وہ یہ دیکھتے ہیں کہ جو دولت انکی روزی روٹی پر خرچ ہونی چاہئے تھی وہ بیرون مملکت ملیشیاﺅں پر صرف ہورہی ہے تو ایسی صورت میں ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوجانا فطری بات ہے۔ وہ جب یہ دیکھتے ہیں کہ نصر اللہ کو ایران سے سب کچھ مل رہا ہے اور وہ فخریہ انداز میں اسکا اظہار بھی کررہا ہے توعوام قیادت سے ناراض ہوگئی ہے۔ ایران کے عام لوگ خط غربت سے نیچے کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں تو ایسی صورت میں فضول قسم کے منصوبے کی خاطر دھن دولت کی قربانی ایرانی عوام برداشت نہیں کرپارہے ۔
ہر و ہ نظام ِ حکومت جس کا اولیں ہدف اپنے شہری نہ ہوں، اسے بالاخر اپنی موت آپ مر جانا ہے۔ تاریخ کے واقعات اس کی تائید و حمایت کرتے ہیں۔ تاریخ میں بار بار یہ قصہ پیش آیا ہے۔ آئندہ بھی تاریخ خودکو دہرائے گی۔تاریخ سے ہر کس و ناکس سبق نہیں لیتا۔ بہت کم لوگ تاریخ سے سبق لیتے ہیں۔ اقوام ِعالم کی زندگی میں چند برس کوئی معنیٰ نہیں رکھتے۔ مثال کے طور پر ایک انسان کی زندگی میں 30برس کا دورانیہ کافی طویل ہوتا ہے لیکن اقوام کی زندگی میں 30برس پلک جھپکتے میں گزر جاتے ہیں۔
بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ چند عشروں تک جاری رہنے والا ظلم زمینی حقیقت بن چکا ہے۔ اب اس سے چھٹکارا ممکن نہیں۔ اس قسم کے لوگ فرضی ماحول کو اپنے اوپر اوڑھ لیتے ہیں۔ اس قسم کے بہت سے لوگ مظلومیت کے عالم میں ہی دنیا کو خیر باد کہہ جاتے ہیں۔ یہ معاملہ افراد کی حد تک قابل فہم ہے۔ جہاں تک امت یا قوم کا تعلق ہے تو ظلم سہتے سہتے وہ مرجائے ایسا ممکن نہیں۔ ایک دن آتا ہے کہ راکھ کے نیچے موجود چنگاری آگ پکڑ لیتی ہے اور ظلم کرنے والوں کے ایوانوں کی خبر لے لیتی ہے۔ کائنات کا قانون یہی تھا ،یہی ہے اور یہی رہیگا۔
ایرانی حکمراں دعوے کررہے ہیں کہ پوری دنیا انکے خلاف سازش کررہی ہے۔ مظاہرین غدار اور وظیفہ خوار ہیں۔ ایسے عالم میں یہ سوچنا کہ علی خامنہ ای اپنے گھر کی بالکونی سے نمودار ہوکر لوگوں سے کہیں گے کہ آپ حق پر ہیں۔ میں ظالم ، آمر اور گھٹیا انسان ہوں اور ہمارا نظام ِحکومت بنی نوع انساں کے درمیان تعلقات استوار کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا۔ اس قسم کی سوچ کے مطابق کچھ ہونا ممکن نہیں۔ ایران میں جو کچھ ہورہا ہے وہ کہیں بھی ہوسکتا ہے۔ایرانی نظام ِحکومت میں مظلوم کو ظلم پر احتجاج کی اجازت نہیں۔ درد مند کا چیخنا چلانا درد کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اس کے پیچھے نہ مشرق کا ایجنڈا ہوتا ہے نہ مغرب کا۔ بہرحال پوری دنیا چاہتی ہے کہ ایرانی حکمرانوں تک ایک پیغام پہنچ جائے۔ پیغام یہ ہے کہ ایران کے حکمرانو! آپ اپنے امور اور اپنے عوام کے مسائل میں دلچسپی لیں، دوسروں سے آپ کو کچھ لینا دینا نہیں۔ دوسرایہ کہ ایرانی عوام اپنے حکمرانوں کو ایک پیغام دینا چاہتے ہیں۔ پیغام یہ ہے کہ معزز بزرگ اکابر! آپ کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ انسان اپنے مسلک و فرقے کےخلاف چوں چرا برداشت کرلیتا ہے لیکن کوئی شخص اس کے پیٹ پر لات مارے یہ برداشت سے باہر ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭