آسام میں غیر ملکی باشندوں کی شناخت سے متعلق دستاویز جاری ہونے کے بعد افراتفری کا ماحول ہے۔ نیشنل رجسٹر آف سٹیزنس (این آر سی) کے پہلے ڈرافٹ میں ایک کروڑ 90لاکھ لوگوں کو ہی ہندوستان کا جائز شہری تسلیم کیاگیا ہے جبکہ مجموعی طورپر 3 کروڑ 29لاکھ لوگوں نے اس کے لئے درخواستیں دی تھیں۔یعنی ایک کروڑ 39لاکھ لوگوں کے سروں پر ابھی تک شہریت کی تلوار لٹکی ہوئی ہے اور وہ اپنے مستقبل کے تعلق سے تشویش میں مبتلا ہیںحالانکہ صوبائی حکومت نے دعویٰ کیاہے کہ شہریت کی تصدیق کے بعد دوسرا ڈرافٹ بھی جاری کیاجائے گا لیکن لوگوں کو اس بات پر یقین نہیں اور وہاںعجیب وغریب صورتحال پیدا ہوگئی ہے۔ ریاستی حکومت نے حالات کو قابو میں کرنے کیلئے اضافی فورس طلب کرلی ہے۔ جن لوگوں کے نام پہلی فہرست میں شامل نہیں ہوپائے ، وہ خود کشی جیسے انتہائی اقدامات کی طرف راغب ہورہے ہیں۔ اس سلسلے کی پہلی واردا ت سلچر میں درج ہوئی ، جہاں 40سالہ حنیف خان نے این آر سی ڈرافٹ میں اپنا اور اپنے اہل خانہ کا نام نہ پاکر درخت سے لٹک کر جان دیدی ہے۔ حنیف خاں کی اہلیہ کا کہنا ہے کہ وہ گزشتہ کئی روز سے فہرست کے اجراء کے تعلق سے سخت تناؤ میں تھے اور اکثر پوچھتے تھے کہ اگر ان کا نام رجسٹر میں نہیں آیا تو کیا ہوگا۔ جن لوگوں کے نام پہلی فہرست میں شامل نہیں، ان میں آسام ڈیموکریٹک فرنٹ کے صدر اور ممبرپارلیمنٹ بدرالدین اجمل سمیت کئی مسلم ممبران اسمبلی بھی شامل ہیں جبکہ الفا کے چیف کمانڈر پریش بروا کا نام اس فہرست میں شامل ہے جو گزشتہ 20سال سے اپنی غیر قانونی سرگرمیوں کے سبب آسام سے فرار ہیں۔
آسام کے مسلمانوں پر اپنی شہریت ثابت کرنے کی دودھاری تلوار ایک عرصے سے لٹکی ہوئی ہے۔ وہاں طویل عرصے تک اقتدار میں رہنے والی کانگریس پارٹی نے اس مسئلے کو حل کرنے کی بجائے اس کا بھرپور سیاسی استحصال کیا۔ کانگریس کے بعد بھارتیہ جنتاپارٹی نے اس مسئلے پر سیاست کو سنگین رخ دینے میں ذرا بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی۔ مقامی آبادی کا ایک طبقہ یہاں صدیوں سے آباد مسلمانوں کو بنگلہ دیشی درانداز قرار دے کر انہیں ملک بدر کرنے کی مہم چلاتا رہا ہے۔ اس خوں ریز مہم کے دوران اب تک سیکڑوں مسلمانوں کو اپنی قیمتی جانیں گنوانی پڑی ہیں۔ یہ مسئلہ مختلف اوقات میں مختلف صورتوں میں نمودار ہوتا رہا ہے لیکن ہر مرتبہ اس کی ضرب غریب اور لاچار مسلمانوں پرہی پڑی ہے۔ جب سے ریاست میں بھارتیہ جنتاپارٹی برسراقتدار آئی ہے تب سے مسئلے کی سنگینی میں مزید شدت پیدا ہوگئی ہے کیونکہ اس کا انتخابی نعرہ ہی آسام سے بنگلہ دیشی مسلمانوں کو ملک بدر کرنے کا تھا۔ 2016میں اقتدار سنبھالنے کے بعد بی جے پی کے وزیراعلیٰ سروانند سونووال نے غیر ملکی باشندوں کی شناخت کیلئے سپریم کورٹ کی طرف سے تشکیل دیئے گئے این آر سی سے علیحدہ ’’ڈٹکٹ، ڈیلیٹ اور ڈیپوٹ‘‘ پروگرام شروع کیاجس کا مقصد غیر ملکیوں کی پہچان کرکے ان کی شہریت کو منسوخ کرنا اور انہیں ملک بدر کرنا تھا۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ بی جے پی سرکار نے اس کام کیلئے ایک لاکھ سے زیادہ سرکاری ملازمین تعینات کئے اور اس مہم پر سرکاری خزانے سے 900 کروڑ روپے خرچ کئے گئے۔ بی جے پی کا کہنا ہے کہ آسام میں تقریباً50لاکھ بنگلہ دیشی غیر قانونی طورپر مقیم ہیں اور انہیں شہری حقوق سے محروم کرکے ملک بدر کیاجانا چاہئے۔ بی جے پی کی اس مہم کے نتیجے میں آسام کے مسلمانوں کو مسلسل خوف وہراس اور دہشت میں مبتلا کررکھا ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ آسام میں غیر قانونی طورپر رہنے والے لوگوں کی شناخت کے لئے سپریم کورٹ کے حکم پراین آر سی 1951 کو اپڈیٹ کرنے کا کام چل رہا ہے۔ 1951کی مردم شماری میں شامل اقلیتی باشندوں کو بھی صوبے کا شہری تسلیم کیاگیا ہے لیکن الجھن 1951سے 1971 کے درمیان آنے والے بنگلہ دیشی پناہ گزینوں کے تعلق سے ہے۔ ان میں سے بیشتر کے پاس قانونی دستاویزات نہیں ۔ پنچایتوں کی طرف سے جاری شہری سرٹیفکیٹ کو تسلیم نہیںکیاجارہا ۔ یہی وجہ ہے کہ کئی تنظیموں نے این آر سی کو اپ ڈیٹ کرنے کے عمل پر سوال اٹھاتے ہوئے اس کی مختلف شقوں کے خلاف سپریم کورٹ میں عرضیاں داخل کی ہیں جن پر ایک ساتھ سماعت چل رہی ہے۔ آسام کے مسلم لیڈران کا کہنا ہے کہ این آر سی انہیں دربدر کرنے کی سازش ہے۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ 1980کی دہائی میں آل انڈیا آسام اسٹوڈنٹس یونین (آسو)کی قیادت میں طلبہ کی پرتشدد تحریک کے نتیجے میں اس مسئلے نے سنگین رخ اختیار کیا اور اسی دوران آسام میں نیلی جیسا خوفناک قتل عام بھی ہوا۔ آخر کار 2005میں مرکزی ، صوبائی حکومتوں اور آسو کے درمیان آسامی شہریوں کا قانونی دستاویز تیار کرنے کے سلسلے میں مفاہمت طے پائی اور عدالت کی مداخلت سے اس کی ایک منظم شکل سامنے آئی۔ آسام میں این آرسی کو اپڈیٹ کرنے کا موجودہ عمل اسی کا نتیجہ ہے۔ 2016کے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی نے اسے ایک بڑا انتخابی موضوع بنالیا۔ بی جے پی نے ایسا کرتے وقت اس کے نتائج اور عواقب پر کوئی غور نہیں کیا۔
اس مسئلے کا سب سے خطرناک پہلو بی جے پی کی فرقہ وارانہ سوچ سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ بحث گرم ہے کہ ہندو بنگلہ دیشیوں کو پناہ دی جائیگی جبکہ مسلمان بنگلہ دیشیوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے گا۔ آسام کے باشندوں کو پشتینی شہری ہونے کی بنا پر شہریت دی جارہی ہے لیکن یہ کیسے طے ہوگا کہ کون پشتینی ہے اور کون نہیں ۔ بی جے پی نے اس تنازع میں جو سب سے خطرناک پیج یہی ڈالا کہ وہ ہندو اور مسلم پناہ گزینوں کے درمیان ایک گہری لکیر کھینچتی ہے۔ اسکے مطابق مشرقی پاکستان یعنی بنگلہ دیش سے آنے والے ہندو دراصل رفیوجی ہیں اور وہ ہندوستانی شہریت کے حق دار ہیںجبکہ بی جے پی بنگلہ دیش سے آنے والے مسلمانوں کو درانداز یعنی گھس پیٹھیا قرار دیتی ہے۔ یہی دہری پالیسی اس مسئلے کو مزید سنگین بناتی ہے۔وزیراعظم نریندرمودی نے انتخابات کے دوران ہندو پناہ گزینوں کوشہریت دینے کا وعدہ کیا تھا اور وہ اس وعدے کو پایہ تکمیل تک پہنچاناچاہتے ہیں۔ اس مسئلے کو حل کرنے کیلئے مرکزی حکومت شہریت ترمیمی بل پاس کرانا چاہتی ہے۔ اس قانون میں چونکہ مسلمانوں کے علاوہ باقی تمام مذاہب کے لوگوں کو شہریت حاصل کرنے کے عمل میں رعایت دی گئی ہے، جوبی جے پی کی مسلم دشمنی کا کھلا ثبوت ہے لیکن معاملہ چونکہ فی الحال ملک کی سب سے بڑی عدالت میں زیر سماعت ہے، اس لئے بی جے پی کے لئے ایسا کرنا آسان نہیں ہوگا۔