ڈاکٹر عبدالمنعم سعید --- الشرق الاوسط
القدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے پر فلسطینی اتھارٹی نے امریکہ کو عرب اسرائیل فلسطین مذاکرات میں ثالث کے کردار سے محروم کرنے کی سزا سنادی۔ دلیل یہ ہے کہ امریکہ عرب اسرائیل مذاکرات میں غیر جانبدار ثالث کا کردار ادا نہیں کررہا۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل میں امریکہ نے اسرائیل کی مکمل جانبداری کا مظاہرہ کیا۔ اتنا ہی نہیں بلکہ امریکہ نے اقوام متحدہ کے اُن ممبران کو جو امریکہ کے فیصلے کیخلاف ووٹ دینگے، انہیں پابندیوں کا انتباہ بھی جاری کردیا۔ امریکہ نے اس قسم کا رویہ اس سے قبل کبھی نہیںدکھایا تھا۔
فلسطینی اتھارٹی نے یہاں تک جو کچھ کہا وہ حقائق کادقیق ترین اور درست اظہار ہے۔ جہاں تک سیاسی پہلو کا تعلق ہے تو فلسطینی اتھارٹی کا مذکورہ رویہ ہمیں یہ سوال کرنے سے نہیں روک سکتا کہ اگرامریکہ ثالث نہیں تو پھر کون ثالث ہوگا؟
سوال کا باعث یہ ہے کہ کیا امریکہ کبھی بھی اسرائیل کا جانبدار نہیں رہا؟عرب اسرائیل مذاکرات جب جب ہوئے تب تب امریکہ کے سربراہ اور اسکے سفارتکاراسرائیل کی جانبداری کرتے رہے۔ہمیں فلسطینیوں کے جو حقوق بین الاقوامی قانون اور قراردادوں کے حوالے سے بالکل درست اور صاف شفاف نظر آرہے تھے، امریکہ نے کبھی انہیں اس زاویہ نظر سے نہیں دیکھا۔ عرب اسرائیل کشمکش کی تاریخ بتاتی ہے کہ مذاکرات اور کشمکش کے باب میں جو بھی نتیجہ برآمد ہوا ،اس میں فیصلہ کن کردار امریکہ کا ہی رہا۔ اسرائیلی ریاست کے قیام کا جیسے ہی اعلان ہوا تھا پہلے امریکہ اور پھر سوویت یونین(روس) نے اسے تسلیم کیا۔امریکہ ہی نے اسرائیل کو بین الاقوامی قانونی جواز فراہم کیا۔ پھر عالمی برادری کی دیگر طاقتوں نے اسرائیل کو تسلیم کیا۔برطانیہ، فرانس اور اسرائیل نے 1956ء میں مصر پر سہ فریقی حملہ کیاتھا۔ مصری اراضی سے تینوں ممالک کو نکلنے پر مجبور کرنے والا امریکہ ہی تھا۔ اسرائیل سینا سے نکلنا نہیں چاہتا تھا۔ امریکہ نے مارچ 1957ء میں اسے سینا سے انخلاء پر آمادہ کیا۔ جون 1967 ء کی جنگ میں عربوں کی شکست کا ذمہ دار امریکہ تھا۔ اسکے بعدہونے والے معرکوں میں اسرائیل کا پلڑا بھاری رکھنے کا ذمہ دار بھی امریکہ ہی رہا۔ پھر اکتوبر 1973 ء کی جنگ میں امریکہ نے عرب مخالف موقف کھلم کھلا اختیار کیا۔
مذکورہ تمام مواقع پر امریکہ کا موقف اسرائیل نواز ہی رہا جیسا کہ اب بھی ہے۔ امریکہ کی اسرائیل نوازی کے باوجود عربوں نے اقتصادی، عسکری اور سفارتی وسائل کے بل پر امریکہ کے موقف میں لچک پیدا کرنے کا عمل جاری رکھا۔ اسکی بدولت عربوں کو متعدد کامیابیاں نصیب ہوئیں۔ 1956ء کی جنگ میں امریکہ کا عرب نواز کردار اس کی روشن مثال ہے۔ عبدالناصر کو یہ بات بہت اچھی طرح سے معلوم ہوگئی تھی کہ امریکہ مشرق وسطیٰ میں اپنا اثر و نفوذ قائم کرنے میں دلچسپی لے رہا ہے۔ سابقہ استعماری طاقتیں پسپائی اختیار کررہی ہیں۔عبدالناصر نے جون 67ء کی جنگ سے سبق لیکر روجرز اقدام قبول کرکے امریکہ کی ہمنوائی حاصل کی۔ مصر کو اس کا فائدہ ، مقبوضہ علاقے آزاد کرانے کی مہم میں میزائل پروگرام تیار کرنے کی صورت میں حاصل ہوا۔عبدالناصر نے اُس وقت غیر جانبدار امریکہ کی ثالثی قبول کی تھی تو مختلف ممالک کو اس پر حیرت ہوئی تھی۔ صدر سادات جنگ 1973ء کے بعد امریکہ سے معاملات طے کرنے کے سلسلے میں عظیم اسکول کے بانی مانے جاتے ہیں۔ انہوں نے اپنی وفات تک یہ سلسلہ جاری رکھا۔انکی پالیسی یہ تھی کہ امریکہ کو بین الاقوامی قانون نظام پر لیکچر دینے کی ضرورت نہیں بلکہ زمینی سیاسی حقائق کو پتے کے طور پر استعمال کیا جانا زیادہ بہتر ہے۔ اس حوالے سے انہوں نے جس امر پر سب سے پہلے زور دیا وہ یہ کہ مصری اورعرب امریکہ کے دشمن کیمپ کا حصہ نہیں بلکہ عرب علاقے نے کمیونزم کے پھیلائو کی جس قدر مزاحمت کی دنیا کے کسی اور علاقے نہیں کی۔ دوسرا نکتہ انہوں نے یہ اٹھایا کہ اسرائیلی ریاست اور اسرائیلی شہنشاہیت کے درمیان فرق کرنا پڑیگا۔ اسرائیلی ریاست کے ساتھ امریکہ کا تعلق قابل فہم ہے لیکن اسرائیلی شہنشاہیت کے آگے امریکہ کا جھک جانا خود امریکہ کیلئے نقصان دہ ہے۔ تیسرا نکتہ انہوں نے یہ دیا کہ ہماری دنیا میں صرف امریکہ ہی نہیں بلکہ بحرانوں کے زمانے میں دیگراتحادی بھی ہیں اور وہ مختلف اوقا ت میں امریکہ کی پالیسی پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اسی تناظر میں انہوں نے برطانیہ، جاپان، آسٹریلیا اور کینیڈا کے ساتھ تعلقات استوار کئے۔ چوتھا نکتہ انہوں نے یہ دیا کہ یہ مذکورہ حقائق اپنی جگہ بیحد اہم ہیں تاہم ہمیں اپنی ذات پر انحصار کرنا ہوگا اور سفارتی یا سیاسی بنیادوںیا القدس کے دورے یا اسلحہ کے استعمال کے ذریعے نئے زمینی حقائق پیدا کرنا ہونگے۔
فلسطینیوں کی جانب سے امریکہ کی بابت فیصلے سے امریکہ کا ثالثی کا کردار ختم نہیں ہوسکتا۔ فلسطینیوں کو ایران کے ساتھ مغربی دنیا کے مذاکرات کے فارمولے سے بھی سبق لینا چاہئے۔علاوہ ازیں فلسطینیوں کے پاس آبادی کا نقطہ ایسا ہے جو ہر نقطے پر بھاری ہے۔ انہیں اس حوالے سے مزید غور وفکر اور مزید مکالمے کی ضرورت ہے۔