Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا حکومت واقعی گر جائے گی؟

***صلاح الدین حیدر***
خطرے کی گھنٹی بجنے تو لگی ہے، لیکن کیا محض لاہور کے مال روڈ پر دھرنے سے (ن) لیگ کی حکومت گر جائے گی؟ سوال اہم ہے تو چلئے جواب ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں۔ 2014 میں ماڈل ٹائون کے منہاج القرآن ادارے میں خون کی ہولی کھیلی گئی، 14 افراد جس میں حاملہ عورتیں، معصوم بچّے، بوڑھے سب ہی شامل تھے، موت کے گھاٹ اُتار دیے گئے۔ کوئی بھی غیرت مند حکمران ہوتا تو ذمے داری قبول کرکے عہدے چھوڑ دیتا لیکن ہمارے ملک میں استعفیٰ دینے کی رِیت ہے ہی نہیں۔ یہاں تو جو تخت پر بیٹھ گیا وہ بزور بازو نکالا جائے تو جائے ورنہ ہٹنا تو درکنار، ہمدردی تک نہیں جتاتے۔ یہ ہے ہماری بدقسمت قوم۔
مثل مشہور ہے کہ جیسی روح ویسے فرشتے، انگریزی میں اس کا نعم البدل صرف ایک ہی ہے کہ ’’Like Father, like Son‘‘، لیکن یہ کہنا کہ عوام لاشعور اور بے حس ہوچکے ہیں غلط ہوگا۔ عوام بے بس ہیں، اُن کے پاس احتجاج کے علاوہ کوئی اور ہتھیار ہی نہیں جس کے ذریعے وہ اپنا شکوہ حکومت تک پہنچاسکیں۔ قصور کی آٹھ سالہ زینب کا کیس ہو یا 19 سالہ ملائیشیا میں زیر تعلیم کراچی کے نوجوان کے قتل کا ذکر ہو، نتیجہ ایک ہی نکلتا ہے کہ پولیس ناصرف محکمہ جاتی کارروائی کرنے میں نااہل ہے، بلکہ مجرموں سے ملی ہوئی ہے۔ جب قانون کے رکھوالے ہی لوگوں کی جان، مال، عزت، آبرو کی حفاظت کے بجائے ڈاکوئوں اور قاتلوں کا روپ دھار لیں تو پھر سوائے اشک شوئی، آہ و بکا کے اور کچھ نہیں بچ سکتا۔ 
کینیڈا میں رہنے والے علامہ طاہر القادری، جو بے شک ایک عالم اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں، شعلہ بیاں مقرر ہیں، کروفر سے بولنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے، دلائل سے بات کرتے ہیں، لیکن مستقل مزاجی کی کمی اُن کی راہ میں رکاوٹ بن جاتی ہے، 2013 سے تو ہم یہی دیکھتے آرہے ہیں، دھرنے دیے، کنٹینر پر مہینوں گزارے، لیکن پھر بوریا بستر گول کرکے چلتے بنے۔ اس مرتبہ اُنہوں نے شاید تھوڑی سی عقل مندی سے کام لیا ہے۔ بجائے سولو فلائٹ کے کئی ایک سیاسی جماعتوں کو دعوت دی کہ اُن کے ساتھ ڈاکٹر باقر نجفی کی رپورٹ میں کیے گئے انکشافات کی روشنی میں ماڈل ٹائون کے واقعے کو دوبارہ زندہ کیا جائے۔ نیتیں صاف ہوں تو کامیابی خود بخود قریب آجاتی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری اور پاک سرزمین پارٹی کے مصطفیٰ کمال نے اُن کے ساتھ لاہور کی اہم شاہراہ مال روڈ پر 17 جنوری کو دھرنے کا پروگرام بنایا۔ جب یہ سطور لکھی جارہی تھیں، لوگ مال روڈ پر جمع ہونا شروع ہوگئے تھے۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ شہباز شریف اور اُن کے حواریوں کے چہرے فق تھے اور تو اور سابق وزیراعظم نواز شریف نے بھی دھرنے پر تشویش کا اظہار کیا۔ ان سب باتوں سے کیا فرق پڑتا ہے؟ اُمید تو یہی تھی کہ عمران خان اور زرداری کی موجودگی میں، جو ایک دوسرے کے سدا سے دشمن ہوتے ہوئے بھی طاہر القادری کے کہنے پر اُن کے ساتھ بیٹھنے پر راضی ہوگئے، یہ بذات خود کسی طرح سے کم کارنامہ نہیں تھا۔ 
دھرنے کے بارے میں تو بعد میں لکھوں گا، لیکن اس وقت کچھ ایسے مسائل زیر نظر ہیں جن کا جواب دینا ضروری ہے۔ تحاریک، خاص طور پر ایسی تحاریک جو حکومت مخالف ہوں، اُسی وقت کامیاب ہوتی ہیں جب خون خرابہ ہو، جلائو گھیرائو ہو، نظامِ حکومت ٹھپ ہوجائے، حکومت مفلوج ہوکر رہ جائے تو پھر تو حکمرانِ وقت کے جانے کے بارے میں حتمی رائے قائم کی جاسکتی ہے۔ ایوب خان، بھٹو اور کسی حد تک ضیاء الحق کے خلاف ایم آر ڈی کی تحریک چلی، ایوب خان اور بھٹو کے خلاف تحریکوں میں خون کی ندیاں بہائی گئیں، لوگ شہید ہوئے، کرفیو لگانا پڑا، فوج کو آنا پڑا۔ ظاہر ہے کہ دونوں کو اقتدار سے علیحدگی اختیار کرنا پڑی، اب وہ تاریخ کا حصّہ ہیں۔ ضیاء الحق کے خلاف ایم آر ڈی نے تحریک تو شروع کی، جلائو گھیرائو بھی ہوا، لیکن پنجاب میں چار بریگیڈیئر کی سطح کے فوجی افسران نے لاہور میں طلباء کے خلاف گولی چلانے سے انکار کردیا۔ ضیاء الحق اُن کے گھر تک گئے منانے، لیکن بے سود۔ ظاہر تھا تحریک آدھے راستے میں ہی دم توڑ گئی۔ 
کہنے کا مطلب کسی بھی واقعے کو سیاق و سباق کے حوالے سے صحیح طور پر جانچا جاسکتا ہے۔ مجمع تو جمع ہوجائے گا، لیکن احتجاج میں حصّہ لینے والی پارٹیوں یا قائدین کے مقاصد میں تضاد صاف نظر آرہا تھا۔ طاہر القادری اور زرداری نے جو پہلے اسمبلیاں تحلیل کرنے کے خلاف تھے، اب کھلم کھلا اعلان کردیا کہ حکمرانوں کو جانا پڑے گا۔ شہباز شریف اور پنجاب کے وزیر قانون رانا ثناء اﷲ، دونوں ہی سانحہ کے مرکزی کرداروں میں شمار ہوتے ہیں، کو مستعفی ہونا پڑے گا۔ ہم استعفیٰ کا مطالبہ نہیں کررہے، استعفے لے کر رہیں گے۔ طاہر القادری کا اعلان غیر مبہم تھا، لیکن یہ ہوگا کیسے، اس کا جواب اب تک نہیں ملا۔
شہباز شریف اور اُن کے ساتھی پنجاب حکومت میں آرام سے بیٹھے نظر آتے ہیں، تشویش ضرور ہے، کہ بات کہیں بگڑ نہ جائے، لیکن مسندِ اقتدار سے ہٹائے گا کون۔ ایوب خان کو اُس وقت کے آرمی چیف جنرل یحییٰ خان نے پستول کے نشانے پر استعفیٰ دینے پر مجبور کیا، بھٹو کو جنرل ضیاء الحق نے 5 جولائی 1977 کو گرفتار کرکے پھانسی پر لٹکادیا۔ شہباز کے خلاف تو ایسا کوئی حربہ کام کرتا نظر نہیں آتا۔ احتجاج ہوگا، ایک دن ہو یا لمبا کھنچے، دوبارہ کچھ دن بحث شروع ہوجائے، لیکن جب تک لوگ قاہرہ کی طرح لاکھوں کی تعداد میں جمع نہیں ہوں گے، کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ حکمراں جب تک جان پر نہ بن جائے، اقتدار سے چمٹے رہتے ہیں، یہی کچھ لاہور اور اسلام آباد میں بھی ہوگا۔
کیا طاہر القادری اور زرداری تحریک آگے بڑھ پائے گی۔ بظاہر تو مشکل نظر آتا ہے، اُن میں اتنی اہلیت ہی نہیں ہے، عمران خان کے بارے میں ایسا نہیں کہا جاسکتا، کیوںکہ پی ٹی آئی کے چیئرمین نے تن تنہا ڈیڑھ سال نواز شریف کے خلاف تحریک چلائی اور بالآخر اُنہیں ہٹا کر چھوڑا۔ وہ آج بھی شہباز کے خلاف سڑکوں پر رہنے کے قائل ہیں، اُن کے لوگ اس معاملے میں خاصے تربیت یافتہ اور تجربہ کار ہیں۔ عمران کو کوئی مشکل نہیں ہوگی۔ زرداری کے پاس تو پنجاب میں لوگ ہی نہیں ہیں تو تحریک کیا چلائیں گے۔ طاہر القادری کے کندھے پر سوار ہونا اُنہوں نے غنیمت جانا کہ شاید اس طرح اُن کے کچھ ہاتھ آجائے، لیکن لگتا نہیں۔
غور سے تجزیہ کیا جائے تو نواز شریف کے بارے میں مثبت دلائل کم ہی نظر آتے ہیں۔ انتخابات کے دوران 2013 میں اُنہوں نے اپنے منشور میں بلند بانگ دعوے کئے کہ پی آئی اے، اسٹیل مِل، آئل اینڈ گیس ڈیولپمنٹ کارپوریشن، ریلویز اور واپڈا کو ٹھیک کرنے کے لیے بین الاقوامی ساکھ کے اعلیٰ و ارفع افسران اور تجربہ کار لوگ لاکر ان اہم قومی اداروں کی ساکھ بحال کریں گے، لیکن جب نومن تیل ہاتھ ہی نہیں لگا یا صاف طور پر کہئے کہ حاصل کرنے کی کوشش ہی نہیں کی گئی تو رادھا آخر ناچے گی کیسے۔ اسٹیل مل جو صنعت و حرفت اور دفاعی ہتھیار بنانے میں خاص اہمیت رکھتی ہے، دو سال سے بند پڑی ہے، اُس کے 12 سو ملازمین بے تنخواہ بھوکے مر رہے ہیں، 38 کروڑ ماہانہ تنخواہ دینے کے لیے نہ تو خزانے میں پیسہ ہے، نہ ہی کسی کی نیت صاف لگتی ہے۔ ہندمیں اس وقت 21 اسٹیل مِلز ہیں اور نتیجتاً آج وہ اپنی ساری دفاعی اور صنعتی ضرورتوں میں خود کفیل ہے۔ ہم ہیں کہ دوسروں کی طرف دیکھنے کے عادی ہوچکے ہیں۔ ملک قرضوں پر چل رہا ہے، لمبی لمبی سڑکیں اور شاہراہیں، فلائی اوورز بن رہے ہیں، ریلوے کا نیا نظام لاہور میں شروع ہونے والا ہے، لیکن بے چارے مزدوروں کو دینے کے لیے رقم نہیں۔
پی آئی اے کو اب سرکاری طور پر بیچنے کا اعلان کردیا گیا، دانیال چوہدری نے جو بڑی تگ و دو کے بعد پرائیویٹائزیشن کی وزارت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے، یہ اعلان کرتے وقت ذرا سی بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی۔ پی آئی اے ایک قومی ادارہ ہے، اس کے سارے منافع بخش روٹس ایک ایک کرکے بند کردیے گئے۔ موجودہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی (جو 1998-99 میں قومی ایئرلائن کے
 سربراہ تھے) نے گولڈن ہینڈشیک کرکے سارے ذہین اور ٹیکنیکل ایکسپرٹس کو ملازمت سے علیحدہ کردیا۔ پی آئی اے بے سروپا رہ گئی۔ آہستہ آہستہ وہ آکسیجن ٹینٹ میں پہنچ گئی،  یہ تو ہونا ہی تھا۔ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پی آئی اے کے خریدار کون ہیں؟ کیا کسی نجی ایئرلائن نے اُسے لے کر دبئی، جدہ اور لندن جیسے اہم روٹ پر چلا کر منافع کا سودا کرلیا ہے۔ قوم جواب مانگتی ہے۔
اس تمام تر صورت حال میں نواز شریف چیختے پھر رہے ہیں کہ مجھے کیوں نکالا، عوام النّاس مجھے دوبارہ 2018 کے الیکشن میں عہدے پر بٹھائیں گے، لیکن یہ اُسی وقت ہوسکتا ہے جب سپریم کورٹ اور الیکشن کمیشن اُنہیں اجازت دے۔ اُنہیں تو سیاست سے زندگی بھر کے لیے نااہل قرار دے دیا گیا ہے تو پھر قانون شکنی ہی سے مسئلہ حل ہوسکتا ہے، ہوجائے گا، پاکستان میں سب کچھ ممکن ہے۔ چونکہ بات طاہر القادری کے احتجاج سے شروع ہوئی تھی تو پھر اُس کے نتائج کا بغور جائزہ لینا ہوگا۔
 

شیئر: