عمر العبیدلی ۔ الحیاة
خلیجی ممالک کے ماہرین اقتصاد اس امر پر متفق ہوگئے ہیں کہ تارکین وطن پر انحصار کم کرکے ہی اقتصادی مسائل حل ہوسکیں گے۔ اس اقتصادی حکمت عملی کے منفی اثرات برآمد ہوسکتے ہیں۔ مثال کے طور پر سعودی عرب اور پاکستان، بحرین اور ہندوستان وغیرہ کے تعلقات مذکورہ حکمت عملی پر اثر انداز ہونگے۔ افرادی قوت برآمد کرنے والے ممالک اور خلیجی ممالک کے درمیان تعلقات کے باب میں افرادی قوت کی درآمد و برآمد کا کردار بیحد اہم ہے۔ بہتر ہوگا کہ خلیجی ممالک کے دفاتر خارجہ مستقبل میں تارکین وطن کی تعداد میں کمی کی صورت میں تعلقات کی منصوبہ بندی کریں۔
خلیجی ممالک میں مختلف ممالک کے شہری بسلسلہ روزگار آئے ہوئے ہیں۔ جو لوگ تارکین وطن کے وجود سے متاثر ہوتے ہیں وہ ان کی اہمیت کی بابت نامناسب تصورات کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔
خلیجی ممالک میں ایسے لوگ بھی ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ خلیجی عوام تارکین وطن کو روزگار کے مواقع فراہم کرکے کوئی فلاحی کارنامہ انجام دے رہے ہیں۔ وہ یہ چاہتے ہیں کہ تارکین وطن ہمارے خیر کے اس جذبے کو قدرو منزلت کی نگاہ سے دیکھیں۔ یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ خلیجی ممالک سے تارکین وطن اربوں ریال اپنے اپنے وطن بھیج رہے ہیں۔ یہ خلیجی ممالک کا بھاری خسارہ ہے۔ بعض خلیجی ترسیل زر پر ناک بھوں چڑھاتے ہیں اور ترسیل زر پر پابندیوں اور ٹیکس کے مطالبے بھی کرتے ہیں۔
دوسری جانب غیرملکیوں میں ایسے بھی ہیں جو یہ سوچ رکھتے ہیں کہ خلیجی ممالک کے شہری مستعدی سے کام نہیں کرتے اور خلیجی ممالک کی خوشحالی غیر ملکیوں کی محنت مشقت کا نتیجہ ہے۔ بعض غیر ملکی یہ چاہتے ہیں کہ خلیجی عوام کو ہمارے اس کردار کی تحسین کرنی چاہئے۔ مذکورہ فریقوں نے جو کچھ کہا ہے حق اور سچ دونوں میں سے مکمل طور پر کسی کے بھی پاس نہیں۔ سچ یہ ہے کہ تارکین وطن خلیجی ممالک میں روزگار کے مواقع سے استفادہ کررہے ہیں او رخلیجی عوام تارکین وطن کے ہنر ، انکے تجربے اور انکی خدمات سے فیض یاب ہورہے ہیں۔ خلیجی شہری کا یہ سوچنا کہ اگر کوئی غیر ملکی تنخواہ لیکر اپنے وطن بھیجتا ہے تو اسکا خلیجی کا کوئی نقصان ہے یا غیر ملکی کی یہ سوچ کہ اگرخلیجی شاندار خدمات ، جدید طرز کے بنیادی ڈھانچے سے فائدہ اٹھا رہا ہے تو اس میں غیر ملکی کا کوئی نقصان ہے سراسر غلط ہے۔
اسے ایک مثال سے سمجھا جاسکتا ہے کہ میں بیکری سے روٹی خریدتا ہوں تو اس سے میرا بھی فائدہ ہے اور بیکری کے مالک کا بھی۔ بیکری کا مالک مختلف اشیاءتیار کرے اور کوئی خریدنے والا نہ ہو تو ایسی صورت میں اس کا نقصان ہوگا۔ اسی طرح بیکری نہ ہو تو ایسی حالت میں میرا نقصان ہوگا۔
خلیجی شہری اپنے یہاں غیر ملکیوں کی خدمات سے کافی فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ یہ لوگ ایسے بہت سارے کام کرتے ہیں جنہیں مقامی شہری ہاتھ لگانا پسند نہیں کرتے۔ گھریلو عملے کو اس سلسلے میں بطور مثال پیش کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح تارکین وطن بہت سارے ایسے کام کرتے ہیں جو مقامی شہریوں کو یا تو نہیں آتے یا وہ تارکین کی طرح اچھے انداز میں نہیں کرسکتے۔ دوسری جانب تارکین وطن کو اپنے یہاں کی مارکیٹ کے مقابلے میں خلیجی مارکیٹ میں زیادہ بہتر تنخواہ ملتی ہے۔ بسا اوقات کئی گنا زیادہ تنخواہ حاصل ہوتی ہے۔ اسی کے ساتھ وہ مستحکم اور پرامن ممالک میں رہائش کی سہولت سے بھی فائدہ اٹھا رہے ہوتے ہیں۔ علاوہ ازیں انہیں خلیجی ممالک میں نئے تجربات کے حصول اوراپنے ہنر کو چمکانے کے مواقع بھی ملتے ہیں۔ اسکا مطلب یہ نہیں کہ فریقین میں سے کوئی ایک دوسرے کےساتھ زیادتی اور حلق تلفی کا مرتکب نہیں ہوتا۔ دیکھا جاتا ہے کہ بعض خلیجی کمپنیاں اپنے غیر ملکی ملازمین کو تنخواہیں نہیں دیتیں۔ تاخیر سے تنخواہ دیتی ہیں۔یہ خلاف قانون ہے۔ دوسری جانب غیر ملکی خلاف قانون سرگرمیوں میں ملوث ہوتے ہیں۔ انسانی اسمگلنگ کا ارتکاب کرتے ہیں تاہم یہ خلاف ورزیاں فریقین کی جانب سے محدود دائرے میں ہوتی ہیں۔
خلیجی ممالک نئے اقتصادی دور میں داخل ہورہے ہیں۔ مستقبل میں سعودی عرب اور پاکستان کے تعلقات ایسی صور ت میں متاثر ہوسکتے ہیں جبکہ انہیں بدلتے ہوئے حالات سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش نہ کی جائے۔ برطانیہ ایک زمانے میں ہند سے چائے درآمد کیا کرتا تھا۔ اب وہ اپنی سابقہ کالونیوں سے کیمیکل مصنوعات درآمد کررہا ہے۔ ہندوستانی وزیراعظم نریندر مودی نے حال ہی میں انڈین ایکسپورٹ کونسل کے قیام کا اعلان کیا ہے۔ یہ شمسی توانائی کی تیاری میں کام آنے والی اشیاءکی برآمدات کو فروغ دیگی۔ دوسری جانب خلیجی ممالک بجلی کی تیاری میں تجدد پذیر توانائی کو فروغ دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ اسکا مطلب یہ ہے کہ اگر ہندوستان سے افرادی قوت کی درآمد کے اثرات ہندوستانی اقتصاد پر پڑیں گے تو اسکا تدارک ہندوستانی برآمدات کی نوعیت تبدیل کرکے کرلیا جائیگا۔ بہتر ہوگا کہ خلیجی ممالک افرادی قوت برآمد کرنے والے ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کی نئی حکمت عملی افرادی قوت کی درآمد میں کمی کی بنیاد پر ترتیب دیں۔
٭٭٭٭٭٭٭